کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 49
اراکین ہیں۔جیسا کہ"هیئةکبار العلماء"کی تقنین سے ممانعت والی قرارداد میں بعض ارکان علما کے بعض تحفظات پر مبنی اضافی نقطہ نظر سے بھی یہ واضح ہو گیا تھا۔ تحفظات کا اظہار کرنے والے ان علما میں شیخ صالح بن غصون، شیخ عبد المجید بن حسن، شیخ عبد اللہ خیاط، شیخ عبد اللہ بن منیع، شیخ محمد بن جبیر اور شیخ راشد بن خنین ہیں۔"هیئةکبار العلماء" کے ارکان میں سے جنہوں نےتقنین کو جائز قرار دیا ہے ان میں صالح بن عبد اللہ بن حمید شامل ہیں۔اسی طرح تقنین کو جائز قرار دینے والوں میں شیخ عبد العزیزبن محمد بن ابراہیم آل الشیخ اور ڈاکٹر عبد الرحمن القاسم بھی ہیں جنہوں نے تقنین اور اس کی ضرورت کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ان کے علاوہ جن مشہور علما نے تقنین کو جائز قرار دیاہے ان میں شیخ محمد عبدہ ، شیخ محمد رشید رضا، شیخ احمد شاکر، شیخ محمد ابو زہرہ ،شیخ مصطفی زرقاء، شیخ علی طنطاوی، ڈاکٹر وہبہ الزحیلی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور شیخ محمد بن حسن حجوی ہیں۔‘‘ [1] مذکورہ بالا اکثر وبیشتر علما مصری ہیں۔پس تقنین کے بارے علماء کی دو جماعتوں کے مابین اختلاف در اصل سعودی اور مصری علما کا اختلاف ہے۔ مانعین کے دلائل جو علما’تقنین‘ کو حرام قراردیتے ہیں، وہ قرآن، احادیث، اجماع اور دیگر شرعی دلائل کی روشنی میں اسے ناجائز کہتے ہیں۔ان علما کی طرف سے عموماً جو دلائل بیان کیے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ بے شک ہم نے کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مابین اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجھا دیا۔‘‘ [2]ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:’’پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مابین اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ کر دیں اور اس حق کے مقابلے میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا ہے ،ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔‘‘ [3] اس امت کی طرح سابقہ اقوام کو بھی حق کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم تھا۔قرآن میں ایک جگہ حضرت داؤد سے ارشاد ہے:’’آپ لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں۔‘‘ [4]
[1] اصول فقہ ایک تعارف : 3/ 157 [2] علم اصول فقہ ایک تعارف: 3/157۔158