کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 47
Law )‘معاشرتی کرپشن اور بگاڑ کی وجہ سے بعض اوقات صحیح نتائج یا ثمرات حاصل نہ ہوئے تو بعض منفی ذہنیت کے عناصر ان قوانین کی منسوخی کے درپے ہو گئے۔پیپلز پارٹی نے ان قوانین کی تنسیخ کے لیے تقریباً دو مرتبہ اسمبلی میں بل پیش کیا۔اسی طرح بعض سیکولر سیاسی حلقوں اور حقوق نسواں کی تنظیموں اور پرویز مشرف کی روشن خیال حکومت کی طرف سے21اگست 2006ء کو ’فوجداری ترمیمی بل 2006ء‘ پیش کیا گیا۔بعد میں اسی بل کا نام ’تحفظ خواتین بل 2006ء‘ رکھا گیا۔ملک کے تمام معروف دینی حلقوں نے ان ترمیمات کی مخالفت کی اور ان کو اسلام کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔
شریعت بنچوں کے ایک سال تجربے سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ چار مختلف ہائی کورٹس میں چار شریعت بنچوں کی بجائے ایک مستقل عدالت قائم کر دی جائے جو چاروں ہائی کورٹس کی نمائندہ ہو۔چناچہ مئی 1980ء میں ایک وفاقی شرعی عدالت قائم کر دی گئی جس کاصدر دفتر اسلام آباد میں تھا۔چاروں ہائی کورٹس سے ایک جج لیا گیا اور سپریم کورٹ کے ایک سابق جج اس عدالت کے سربراہ بنے۔اسی دوران اس عدالت کی پانچ رکنی کمیٹی میں سے تین ججوں نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے مسئلے میں جمہور علما کا موقف سنے بغیر ایک شاذ رائے کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کو خلاف شریعت قراردیا۔بعد ازاں عوامی و علمی حلقوں کے دباؤ کے پیش نظر تین جیدعلما کواس عدالت کا رکن بنایا گیا اور اس عدالت نے بہت سے قوانین کا علمی جائز ہ لیا۔ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’1980ء میں اپنے قیام سے لے کر آج تک وفاقی شرعی عدالت نے سینکڑوں قوانین کا جائز ہ لیااور ان میں سے بہت سے قوانین کی جزوی ترامیم کا حکم دیا۔حکومت کو مجبوراً وہ ترامیم کرنا پڑیں۔یوں پاکستان میں سینکڑوں قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے اسلام کے مطابق بنایا جا چکا اور یہ اتنی بڑی کامیابی ہے جو پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں حاصل نہیں کی جا سکی۔‘‘ [1]
عائلی قوانین کے علاوہ 17 مارچ 1997ء کو نافذ ہونے والا قصاص و دیت ایکٹ بھی نفاذ اسلام کے ہدف کی طرف ایک قابل قدر پیش رفت ہے۔ [2]اور 23 دسمبر 1999ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے اپلیٹ بنچ نے متفقہ طور پر معاشرے میں جاری ہر طرح کے تجارت و صرفی لین دین کو قرآن و سنت سے متصادم ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز قرار دیا۔ [3] لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ اس وقت کی آمرانہ ا ور روشن خیال حکومت نے اس سلسلے میں حیلے بہانوں اور ٹال مٹول سے کام لیا اور تاحال اس بارے میں بعد ازاں عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
[1] علم اصول فقہ ایک تعارف : 3/ 155