کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 45
تنظیم نے کبھی اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ [1]
گورنر پاکستان ملک محمد امیر خان نے اسی دوران ایک ایسے آرڈیننس کا بھی اجراء کیاجس میں طوائفوں کے پیشے کوممنوع اور قابل سزا جرم قرار دیاگیا۔نتائج سے قطع نظر فی نفسہ یہ ایک خوش آئند اقدام تھا۔1962ء ہی میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کے حوالے سے ’مسلم عائلی قوانین آرڈیننس‘ کے نام سے ایک قانون نافذ کیا گیا۔اس آرڈیننس میں یتیم پوتے کی وراثت، طلاق اور دوسری شادی کے حوالے سے بعض ایسے قوانین تھے جو اسلامی تعلیمات کے منافی تھے۔مثال کے طور پر اس قانون میں یہ بات طے کی گئی کہ پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیرشوہر کو دوسری شادی کی اجازت نہ ہوگی اور اگر کسی نے ایسی شادی کی تو وہ قانوناً ناجائز تصور ہو گی۔جدت پسندوں نے اس آرڈیننس کی تائید کی جبکہ علما کی طرف سے اس پرشدید تنقید ہوئی۔
1962ء میں اس وقت کی مارشل لاء حکومت نے ایک دستور نافذ کیا، جس میں بعد ازاں شدید عوامی دباؤ کے نتیجے میں مملکت پاکستان کے نام کے ساتھ ’اسلامی جمہوریہ‘ کالفظ بھی لگایا گیا۔ اس دستور کے مطابق بھی اس اصول کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہ ہوگی۔ڈاکٹر تنزیل الرحمن لکھتے ہیں:
’’دستور کی دفعہ 199 کے تحت صدر مملکت کو اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل کے قیام کا اختیار دیاگیاتاکہ یہ کونسل پاکستان کے مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے اصولوں اور تصورات کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب اور امداد دے سکے۔نیز یہ بھی جائزہ لے سکے کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلام کے خلاف یا منافی ہے؟‘‘ [2]
اسی دستور کی دفعہ 207 کے تحت صدر کو ’ادارہ تحقیقات اسلامی‘ کے نام سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا بھی اختیار دیا گیا جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں اپنی تحقیقات پیش کرے۔اسی ادارے کے تحت کئی ایک علمی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے جن میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن کا ’مجموعہ قوانین اسلام ‘ ایک نمایاں و گراں قدر کوشش ہے۔ اس ادارے میں بعد میں کچھ غیر سنجیدہ افراد بھی شامل ہو گئے جس کی وجہ سے اس ادارے کی بہت بدنامی ہوئی ۔ ڈاکٹر محمد امین لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں کی تجدد پسندی نے بھی اس ادارے کے وقاراور سنجیدگی کو نقصان پہنچایاہے۔حکومتی ذرائع سے بھی اس کی کارکردگی کو کبھی نمایاں نہیں کیا گیا۔‘‘ [3]
1973ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو(متوفی1979ء) کے دور میں ایک نیا آئین تیار ہوا جو اگست 1973ء میں نافذ ہوا۔’اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل‘ کو ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کانام دیا گیا۔اس کونسل نے 1973ء
[1] أبحاث هيئة کبار العلماء: 3/164
[2] أیضاً
[3] أیضاً: ص165