کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 44
میں یہ طے پایا کہ اگر کوئی بھی شہری ملک کے کسی بھی قانون کے بارے میں سپریم کورٹ میں یہ دعوی دائر کرے کہ وہ اسلام کے خلاف ہے تو سپریم کورٹ کویہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ایسے قانون کو اگر شریعت سے متعارض سمجھے تو اسے کالعدم قرار دے۔اسلامی شریعت کے نفاذ میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ 23 مارچ1956ء کو پاکستان کا پہلا دستور نافذ ہواجس میں قرار داد مقاصد کو اس دستور کے مقدمے اور بائیس نکاتی فارمولے کی بعض باتوں کو ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ اس دستور کے ذریعہ مسلمانوں کی زندگیوں کو قرآن مجید اور سنت رسول کے مطابق بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔چناچہ دستور کی دفعہ 198کی رو سے یہ قرار دیا گیا کہ اس ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکے گاجو قرآن مجید اور سنت نبوی میں مذکور اسلامی احکام و تعلیمات کے منافی ہو۔ساتھ ہی اس امر کا بھی اظہار کیاگیاکہ موجودہ قوانین کو قرآن پاک و سنت کے مطابق بنایا جائے گا...دستور پاکستان 1956ء کی دفعہ 197 کے تحت صدر مملکت کو اس امر کا اختیار دیا گیاکہ وہ ایک اسلامی تحقیقاتی ادارے کی تشکیل کرے گاجو مسلم معاشرے کو صحیح اسلامی بنیادوں پر قائم کرنے میں ممد و معاون ہو۔ [1] اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی وجہ سے 1956ء کا آئین کالعدم قرار پایا جبکہ1961ء میں مارشل لاء حکومت نے مغربی پاکستان میں’ نفاذ شریعت آرڈیننس‘ جاری کیا۔جس کے مطابق مسلم عائلی قوانین سے متعلق تمام معاملات مثلا شادی، طلاق، حضانت، وراثت، ہبہ اور وقف کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ سب معاملات شریعت کے مطابق طے ہوں گے۔ان موضوعات سے متعلق اسلامی احکام کو تحریری طور پر مدون کیے بغیربراہ راست شرعی قوانین نافذ کر دیے گئے۔ [2] 1962ء ہی میں اس وقت کے گورنرمغربی پاکستان نے ایک قانون نافذ کیا، جس کے مطابق اگر کوئی ایک فریق بھی نکاح، طلاق، وراثت اور وصیت وغیرہ جیسے خانگی و معاشرتی معاملات میں شریعت کے مطابق فیصلہ چاہے گا، تو فریقین کے مابین رائج الوقت قانون کی بجائے شریعت کے مطابق فیصلہ ہوگا۔اس میں ایک استثناء پھر بھی باقی رہا۔ جس کا ماحصل یہ تھا کہ والیان ریاست یا وہ لوگ جن کو اس قانون کی رو سے خاص استحقاق حاصل تھا، ان کے لیے وراثت کا قانون انگریزوں کے اصول ہی پر جاری رہے گا۔ اور وہ قانون یہ تھا کہ نواب یا جاگیر دار کی وفات کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا وارث ہوگااور سب سے بڑے بیٹے کی وفات کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا وارث ہو گا۔اس میں چھوٹے بیٹوں، بیٹیوں، بہنوں سب کو ہر قسم کی جائیداد کے حق وراثت سے محروم کر دیا گیا تھا۔یہ قانون برصغیر میں کم وبیش سو سال جاری رہا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی علمبردار کسی
[1] المدخل الفقهی العام:1/ 209۔210 [2] أيضا:1/208۔209 [3] أبحاث هيئة کبار العلماء: 3/164