کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 43
بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو ان اسلامی تعلیمات اور مقتضیات کے مطابق ڈھال سکیں جو قرآن پاک اور سنت رسول میں متعین ہیں۔ [1]یہ قرار داد آج تک ایک متفق علیہ قانونی اور دستوری دستاویز کے طور پر پاکستان کے ہر دستور میں شامل رہی ہے۔ [2]
1949ء میں ہی پاکستان کی مرکزی اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا، جس میں یہ کہا گیا کہ مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے مسائل شریعت کے مطابق حل کیے جائیں گے بشرطیکہ دونوں فریق مسلمان ہوں اور شریعت اسلامیہ کے مطابق اپنا فیصلہ چاہتے ہوں۔یہ ایک دو سطری قانون تھا جو کئی سالوں تک مشرقی و مغربی پاکستان پر نافذ رہا۔ 1950ء ہی کے لگ بھگ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آئین سازی کے لیے سرکاری سطح پر ایک بورڈ قائم کیاگیا، جس کانام’بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ‘ رکھا گیا۔اس بورڈ میں اگرچہ اس وقت کے نامور دانشور اور علما مثلاً سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، مفتی محمدشفیع (متوفیٰ1976ء)، مولانا ظفر احمد انصاری اور مفتی جعفرحسین رحمہم اللہ وغیرہ شامل تھے لیکن حکومت نے اس بورڈ کی پیش کی گئی سفارشات کو قانون سازی میں کوئی اہمیت نہ دی۔
جب بھی علما یا دینی حلقوں کی طرف سے حکمران طبقے سے اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا تو عام طور پر ان کا جواب یہ ہوتا تھاکہ کون سا اسلام نافذ کیاجائے؟حنفی، بریلوی، شافعی، اہل تشیع یا اہل الحدیث کا؟چناچہ جنوری1951ء میں ملک کے نامور شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث علما کی ایک جماعت نے بائیس نکات پر مشتمل ایک متفقہ فارمولا منظور کیا۔ڈاکٹر محموداحمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ان حضرات نے بائیس نکات پر مشتمل ایک ایسا مسودہ تیار کیا جس کے بارے میں ان حضرات نے اپنے انتہائی علم و بصیرت کے مطابق یہ قرار دیاکہ اگر بائیس نکات کسی دستور میں سمو دیے جائیں تو وہ دستور اسلامی دستور کہلائے گا‘ اس دستور کی بنیاد پر جو اسلامی ریاست قائم ہوگی وہ اسلامی ریاست کہلائے گی اور وہ ریاست جو قوانین نافذ کرے گی وہ اسلامی قوانین ہوں گے۔‘‘ [3]
اس فارمولے پر دستخط کرنے والوں میں مولانا مودودی، سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد انصاری،مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا محمد علی جالندہری،مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا عبد الحامد بدیوانی،پیر مانکی شریف اور مفتی جعفر حسین رحمہم اللہ وغیرہ جیسی نامور شخصیات شامل تھیں۔علما اس بائیس نکاتی فارمولے کو بنیاد بناتے ہوئے نفاذ اسلام کی کوششیں کرتے رہے یہاں تک کہ 1954ء میں جو دستور تیار ہوا اس کے آرٹیکل چار
[1] هيئة كبار العلماء، أبحاث هيئة کبار العلماء: 3/ 163، الرئاسة العامة للبحوث العلمية والإفتاء، المملكة العربية السعودية
[2] أیضاً
[3] أبحاث هيئة کبار العلماء: 3/163
[4] أبحاث هيئة کبار العلماء: 3/163