کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 41
’نظام‘ کا یہ دائرہ بین الاقوامی تجارت کی حدود سے نکلتا چلا گیا اور نئے نئے موضوعات ’نظام‘ کے دائرے میں شامل ہوتے گئے۔بقیہ سارے معاملات جن میں سعودی عرب کے انتظامی قوانین، وہاں کے اداروں کا داخلی نظم و ضبط، حتی کہ باہر سے آنے والے کارکنوں اور مزدوروں کے حقوق، مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے درمیان ذمہ داریوں کی تقسیم، ویزا کے قوانین، شہریت کے قوانین، یہ سب چیزیں وہ ہیں جو نظام کے تحت طے ہورہی ہیں۔نظام کی ترتیب کی تیاری میں نہ علماے کرام کا حصہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے کہ فقہ حنبلی یا شریعت اسلامیہ کے احکام کی روشنی میں اس ’نظام‘ کے مناسب یا غیر مناسب ہونے کا جائزہ لیا جائے۔‘‘ [1]
’نظام‘سے متعلقہ مسائل میں پیش آنے والے مقدمات کا فیصلہ شرعی عدالتوں میں نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل و مقدمات کے حل کے لیے علیحدہ سے کچھ ادارے’مجالس‘ کے نام سے قائم کیے گئے ہیں۔اگرچہ کسی ’مجلس‘ کے تحت پیش آنے والے مقدمے کے فریقین کو یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ شرعی عدالتوں میں اپنا مقدمہ لے جاسکتے ہیں۔بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ’مجلس‘ نے کسی مسئلے میں ایک فیصلہ دیا جبکہ شرعی عدالت نے اس مقدمے میں اس کے بالکل برعکس فیصلہ سنایا۔ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ نظام کو شروع ہی سے عدالتوں اور علما کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا۔شروع ہی میں یہ طے ہو گیا تھا کہ’نظام‘ پر عمل درآمد کے لیے عدالتوں کی بجائے نئے ادارے قائم کیے جائیں گے جن کو ’مجلس‘ کا نام دیا گیا۔یہ’مجلس‘بظاہر ایک کمیٹی ہے لیکن اس کو عملاً وہ تمام عدالتی اختیارات حاصل ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی ایسی عدالت کو حاصل ہوتے ہیں جو تجارتی اور دوسرے قوانین کے مطابق معاملات کا فیصلہ کرتی ہے۔ابتداء میں ان مجلسوں کے روبرو وکلاء پیش نہیں ہوتے تھے۔بعد میں آہستہ آہستہ ’مجالس‘ کے روبرو وکلاء کو پیش ہونے کی اجازت دے دی گئی۔اب سعودی عرب میں دو متوازی نظام چل رہے ہیں ۔‘‘ [2]
انہی جدیدمسائل کے حل کے تناظر میں شرعی بنیادوں پر عائلی زندگی اور حدود وتعزیرات وغیرہ کے میدانوں میں قانون سازی کی دعوتی تحریک وقتاً فوقتاً اٹھتی رہی ہے لیکن تا حال سعودی علما اسے حرام ہی قرار دیتے آ رہے ہیں اور ان کے نزدیک اس کے مفاسد اس کے فوائد سے بڑھ کر ہیں۔شیخ عبدالرحمن بن سعد الشثری لکھتے ہیں:
’’بلاد سعودیہ میں قانون سازی کے لیے ملک عبد العزیز بن عبد الرحمن کے زمانے میں بعض علما نے آواز اٹھائی۔پس اس وقت کے تمام سعودی علما نے اس کی بالاتفاق تردید کی۔اس کے بعد 1426ھ میں اہل علم کی ایک
[1] صبحى، محمصانی، الدکتور، فلسفہ شریعت اسلام مترجم مولوی محمد احمد رضوی: ص111۔113، مجلس ترقی ادب، لاہور، 1975ء؛ عبد القیوم جالندھری، قوانین اسلامی ممالک : ص76، ادارہ علم وعمل، لائلپور
[2] عبد الرحمن بن عبد العزيز القاسم، الإسلام وتقنین الأحکام في البلاد السعودیة:ص249، مطبعة المدني، المملكة العربية السعودية، الطبعة الأولى، 1966م
[3] الإسلام وتقنین الأحکام: ص249
[4] قوانین اسلامی ممالک : ص77