کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 40
مفتی عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں:
’’سعودی عرب میں مکمل دستور نافذ نہیں۔ دوسرے اسلامی ممالک کی طرح کوئی مدنی یا تعزیری قانون نہیں۔ چیف جج سے محکمہ شرعی متعلق ہے وہ اس میں قرآن و سنت کے مطابق احکام صادر کرتا ہے۔چور کے لیے قطع ید کی سزا مقرر ہے۔زنا کی سزا سنگ ساری ہے۔‘‘ [1]
سعودی عرب کے اکثر علما اور کبار فقہا نے بعض اسباب کی وجہ سے، کہ جن کا تذکرہ ہم نے تقنین کے عیوب کے عنوان سے کیا ہے، مجتہد فیہ شرعی احکام میں قانون سازی کو حرام قرار دیاہے۔وہ جلیل القدر سعودی علما کہ جنہوں نے تقنین کو حرام ٹھہرایا ہے، میں شیخ محمد امین شنقیطی‘عبد اللہ بن حمید، عبد العزیز بن باز، عبد الرزاق عفیفی، ابراہیم بن محمد آل الشیخ، عبد العزیزبن صالح، محمدالحرکان ، سلیمان العبید ، عبد اللہ بن عبد الرحمن الغدیان، صالح بن محمداللحیدان، عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرین، صالح بن فوان الفوازان، بکر بن عبد اللہ ابو زید، عبد الرحمن بن عبد اللہ العجلان ، عبد اللہ بن محمدالغنیمان اور عبد العزیز بن عبد اللہ راجحی وغیرہ شامل ہیں۔
جب تہذیب و تمدن کے ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نئے مسائل اور ان کے بارے میں قانون سازی کی ضرورت کا احساس بیدار ہوا تواس کا حل سعودیہ میں یہ نکالا گیا کہ ایسے مسائل میں قانون سازی کو تدبیر و تنظیم کے دائرے میں شامل کرتے ہوئے شریعت اور شرعی احکام کی بحث سے خارج کر دیا جائے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ان حالات میں برادر ملک سعودی عرب میں ایک نیا تجربہ کیا گیا۔وہ تجربہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا اور آج تک خاصی حد تک کامیابی سے جاری ہے۔وہ تجربہ یہ ہے کہ ان نئے معاملات کو جن کا تعلق بین الاقوامی تجارت کے معاملات سے ہو، عام عدالتوں کے دائرہ کار سے نکال دیا جائے اور ان کے لیے از سر نو نئے قوانین مرتب کر کے نافذ کیے جائیں۔یہ کہنا شائدغلط نہ ہو گایوں فقہ اسلامی کی بالا دستی سے ان مسائل کو مستثنیٰ کر دیا گیا۔ان نئے مسائل کے لیے نئے ضابطے تجویز ہوئے جن کا نام ’نظام‘ رکھا گیا۔‘‘ [2]
یہ نظام کن قوانین پر مشتمل تھا؟ اس کے بارے میں ڈاکٹر محمود غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یہ نظام بعینہ وہ قوانین ہیں جو دوسرے ممالک مثلاً مصر، شام، عراق یا کویت میں نافذ العمل ہیں۔ان میں ترتیب و مندرجات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔یہ اسی طرح کے قوانین ہیں جیسے دنیا کے مختلف ممالک میں جاری ہے۔دوسرے ملکوں میں ان کو قوانین اور سعودی عرب میں نظام کہتے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
[1] تقنین الأحکام الشرعیة بین المانعین والمجیزین:ص6