کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 39
سلطان عبد العزیزبن سعود رحمہ اللہ ، عرب کے مرکزی علاقے پرقابض ہوچکے تھے۔اس جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کی،جبکہ ابن سعود رحمہ اللہ نے برطانیہ کی حمایت کی۔برطانیہ کی تحریک پر ابن سعود رحمہ اللہ نے ترکوں کے خلاف جنگ جاری رکھی جس کے نتیجے میں دولت عثمانیہ نے حجاز کا علاقہ بھی خود ہی خالی کر دیا۔1924ء میں والی مکہ سلطان حسین (متوفیٰ1139ھ)نے خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعوی کیالیکن ابن سعود رحمہ اللہ نے اس کو باغی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف لشکر کشی کی اور حجاز فتح کر لیا۔1926ء میں ایک صلح کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ابن سعود رحمہ اللہ کو سعودی عرب جبکہ والی مکہ سلطان حسین کے بھائیوں کو عراق اور شرق اردن کا بادشاہ تسلیم کیا گیا۔
جدید سعودی عرب کے قیام میں آل سعود کے ساتھ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ (متوفیٰ1206)اور ان کے خاندان یعنی آل الشیخ کا بھی کافی نمایاں حصہ تھا لہذا اس سلطنت کے قیام کے وقت ہی سے مذہبی امور میں آل الشیخ کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔اس سلطنت کے قیام ہی کے دور سے سعودی علما فقہی قانون سازی کے تصور سے نا آشنا تھے۔پس سعودی عرب میں شروع ہی سے اسلامی قانون تحریری صورت میں نافذ نہیں رہا بلکہ قاضیوں کویہ ہدایت تھی کہ وہ پیش آنے والے مقدمات میں براہ راست قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے کریں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ (متوفی 2010ء)لکھتے ہیں:
’’ان اسباب کی بنا پر سعودی عرب کے علماے کرام نے تدوین کو ناپسندیدہ قرار دیا اور جب 1924ء۔1925ء میں مملکت سعودی عرب کا قیام عمل میں آیا تو ان کے اس مشورہ یا رائے کے نتیجہ میں یہ طے کیا گیا کہ اسلامی احکام و قوانین کو غیر مرتب ہی رہنے دیا جائے اور جس طرح سے انگلستان میں کامن لاء نافذ ہوتا ہے، کم و بیش اسی طرح سے اسلامی شریعت کو بدستور نافذ العمل رکھاجائے۔چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک سعودی علما کی یہی رائے رہی ہے اور اسی پر وہ عمل درآمد کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔آج بھی مملکت سعودی عرب میں وہ تمام قوانین غیر مدون ہیں جو وہاں کی عام عدالتوں کے دائرہ اختیارمیں ہیں، مثلاً تمام عائلی قوانین، حدود و تعزیرات کے تمام احکام اور ایسے ہی دوسرے متعدد قوانین پر ضابطہ بندی کے بغیر ہی عمل درآمد ہوتاہے۔‘‘ [1]
سعودی عرب نے کوئی کتاب وسنت سے ماخوذ کوئی شرعی قانون نافذ کرنے کی بجائے خود کتاب وسنت کے متن کو نافذ کر دیا ہے اور اس کے متن کی تشریح وتوضیح قاضی اور جج حضرات کے ذمہ ہے جو کہ علما ہوتے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کا تجربہ اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہاں دیوانی اور فوجداری مسائل میں کوئی متعین فقہ نافذ نہیں ہے بلکہ کتاب وسنت براہ راست نافذ ہیں جیسا کہ آگے چل کر تفصیل سے اس پر بحث ہو گی۔
[1] ابن عابدين، محمد أمين بن عمر، رد المحتار علی الدر المختار: 8/89، دار الإحياء التراث العربي، بيروت، الطعبة الأولى، 1419ھ
[2] هيئة كبار العلماء، تدوین الراجح من أقوال الفقهاء، مجلة البحوث الإسلامیة، العدد32، ص 34، من رجب إلى شوال لسنة 1411ھ
[3] الزحيلي، مصطفى وهبة، الدكتور، الفقه الإسلامي وأدلته:8/ 88، دار الفكر، دمشق