کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 38
کسی ایک فقہی مذہب یاصرف مذاہب أربعہ کی آراء پر مشتمل نہ تھا۔اس قانون کی اہم دفعات میں سے ایک جبری وصیت کی شق ہے۔اس شق کے مطابق جو پوتے اپنے دادا اور دادیوں کی وراثت سے محروم ہو جاتے ہوں‘ ان کے لیے ورثہ میں(بطور جبری وصیت) لازمی حصہ شامل ہو گا اور یہ حصہ وہ ہو گا جو ان کے والد کے زندہ ہونے کی صورت میں ان کو ملنا تھابشرطیکہ وہ حصہ(جو پوتے کو ملنا ہے) کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد نہ ہواور یہ بھی کہ ان کے دادا یا دادی نے ان کے حق میں کوئی اور وصیت نہ کی ہو۔یہ قانون بعض تابعین اور فقہ اباضیہ کی رائے کے مطابق بنایا گیا ہے۔اسی طرح اس قانون کے مطابق وارث کے لیے بھی وصیت کا ایک تہائی ترکہ کی حدود میں جائز قرار دیاگیا ہے ، چاہے باقی ورثا راضی ہوں یا نہ ہوں۔‘‘ [1] 1936ء میں ہی علما کی ایک کمیٹی نے مختلف مذاہب کی روشنی میں مصرکے جدید مدنی قانون (Civil Law) کو مرتب کیا۔ مصر کے مدنی(Civil) قانون کی تنقیح کے لیے پہلی کمیٹی 1936ء میں‘ دوسری کمیٹی 1938ء میں اور تیسری کمیٹی 1938ء کے آخر میں ڈاکٹر عبد الرزاق سنہوری بیگ کے زیرقیادت بنائی گئی۔آخری کمیٹی نے تقریباً دو سال کے عرصے میں اپنا کام مکمل کر لیا اور اس کے بعد توضیحی اور ٹھوس یاداشتیں قلم بند کیں۔جدید مسودہ قانون میں 1149 دفعات ہیں اور وہ تین ماخذوں سے لیا گیا ہے: قانون مقارن‘ اجتہاد القضاء المصری اور شریعت اسلامیہ۔ [2] یہ قانون 1949ء میں نافذ ہوا۔ اس نے قانون مدنی 28 اکتوبر 1882ء اور قانون مدنی محکمہ جات مختلط28 جون1875ء کومنسوخ کر دیا۔ [3]یہ مصر میں اسلامی بنیادوں پر قانون سازی کی ایک مختصر سی تاریخ تھی۔اب ہم عالم عرب اور عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب میں تقنین کے حوالے سے ہونے والے کوششوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں قانون سازی کی تاریخ سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں سعودی عرب کا اکثرعلاقہ خلافت عثمانیہ کے تحت تھا اور یہاں تقریباًوہی قانون لاگو تھا جس کا نفاذ ترکی میں تھا۔ترک حکمرانوں کی بعض پالیسوں سے اختلاف کرتے ہوئے اس وقت کے ایک مقامی عرب حکمران عبد العزیز بن سعود رحمہ اللہ (متوفی 1953ء)نے فوج جمع کر کے ترکوں کے خلاف جنگ شروع کر دی اور 1902ء میں نجد کے دار الحکومت ریاض کو فتح کر لیا۔جنگ عظیم اول 1914ء کے دوران
[1] النووي، محي الدين يحييٰ بن شرف، المجموع شرح المهذب: 9/120، دار الفكر، بيروت [2] ابن قدامة، موفق الدين عبد اللّٰه بن أحمد بن محمد، المغنی في شرح الخرقي: 11/480، جامعة الإمام محمد بن سعود، الرياض، الطبعة الثانية، 1399ھ [3] ابن تيمية، أحمد بن عبد الحليم ، مجموع الفتاوی:3/240، دار الوفاء، الرياض، الطبعة الثالثة، 1426ھ [4] أیضاً:31/ 73۔74