کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 37
معاشرتی تبدیلیوں کے لیے مناسب و مفید ہوں۔کمیٹی کو یہ بھی اختیار تھا کہ وہ جس مسئلے میں یہ محسوس کرے کہ اس کے بارے میں شکایت عا م ہے یا اس میں قانون سازی کی شدید ضرورت ہے تو و ہ اس مسئلے کو قانون سازی کے لیے بنیاد بنا سکتی ہے۔‘‘ [1] اس کمیٹی نے جلد ہی اپنے کام کا آغاز کر دیا اور سب سے پہلے قانون وراثت کو مدون کیا کیونکہ اس میں اختلافات بہت کم ہیں۔کمیٹی نے معاشرے میں پائے جانے والے بعض جدید مسائل و ابحاث کے تناظر میں کچھ ایسے قوانین بھی مرتب کیے جو معروف فقہی مذاہب کے مطابق نہ تھے۔ استاذ محمد سلام مدکور لکھتے ہیں: ’’اس کمیٹی نے اپنے کام کا آغازقانون وراثت سے کیا کیونکہ اس میں تبدیلی نسبتاًکم تھی۔ پس 1943ء میں جمیع احکام وراثت پر مشتمل قانون 77جاری ہوا...اس قانون کے ان اہم ضوابط میں سے کہ جو معمول بہ فتاوی کے خلاف ہیں، ایک یہ ہے کہ بھائیوں اور بہنوں کو’ جد صحیح‘ کی موجودگی میں اس وقت بھی وارث شمار کیا گیا ہے جبکہ دادا ان کو محروم کر رہا ہو۔اسی طرح میاں یا بیوی میں سے ایک اگر فوت ہوجائے تو بحیثیت ذوی الفروض اپنا حصہ لینے کے بعد بھی ان میں کوئی ایک، ذوی الفروض رشتہ داروں کو ورثہ کی ادائیگی کے بعد، بقیہ مال لے سکتا ہے بشرطیکہ متوفی کا کوئی قریبی رشتہ دار (عصبہ نسبی )موجود نہ ہو کیونکہ میاں، بیوی کا تعلق عصبہ سببی(مالک اور اس کے آزاد کردہ غلام کے تعلق) کی نسبت زیادہ قربت کا ہوتا ہے۔‘‘ [2] اسی طرح کی قانون سازی اس کمیٹی نے قانون وقف کے بارے میں بھی کی اور اسے تقریباً قانون وراثت کے قریب پہنچا دیا۔ استاذ محمد سلام مدکور لکھتے ہیں: ’’پھر 1946ء میں قانون 48 صادر ہوا‘ جس کے ذریعے وقف کے بعض احکام کو تبدیل کیا گیا۔اس قانون کے اکثر ضوابط کو تمام مذاہب کے مختلف فقہاء کی آراء سے اخذ کیا گیاتھااور اس کے ذریعے ایسے قوانین کی خواہش کی گئی ہے جن سے لوگوں کی مصالح پوری ہوں اور جو ملک کے اقتصادی نظام میں رکاوٹ پید انہ کریں۔اس قانون کے اہم ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ قانون وقف کو قانون میراث کے قریب کر دیاگیاہے اور ملکی وقف کے جمیع قوانین کو 1952ء میں قانون 180 کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘ [3] اسی کمیٹی کی کوششوں سے 1946ء میں قانونِ وصیت بھی جاری ہوا۔اس قانون کے ذریعے بھی معاشرے کے بعض پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ استاذ محمد سلام مدکور کہتے ہیں: ’’اسی طرح 1946ء میں قانون 71 بھی جاری ہوا جو وصیت سے متعلقہ مسائل کے بارے میں تھا۔یہ قانون بھی
[1] ابن برهان الدين، تبصرة الحکام في أصول الأقضیة ومناهج الأحکام:1/45۔46، دار الكتب العلمية، بيروت [2] إبراهيم بن علي، مواهب الجلیل شرح مختصر الخلیل، باب الأقضیة:8/80 [3] الماوردي، أبو الحسن علي بن محمد بن محمد، الأحکام السلطانیة: 78، دار الحديث، قاهرة