کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 35
مطابق قوانین وضع کرے۔پس حکومت نے مذاہب اربعہ کے کبار علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔‘‘ [1] اس کمیٹی کی کوششوں سے کئی ایک قانونی مسودات تیار ہوئے ۔ اس کمیٹی نے نکاح ‘ طلاق اور ان سے متعلقات پر مبنی اپنا پراجیکٹ مکمل کر لیا جو 1916ء میں طبع ہوا اور 1917ء میں اس کو دوبار تنقیح کے بعد شائع کیاگیا۔ [2] لیکن بعض حنفی علما، کہ جن کا عوام الناس میں خاصا اثر تھا،نے صرف حنفی مذہب پر مبنی قانون سازی ہی کو تقنین کا صحیح منہج قرار دیا اور قانون سازی کی ان اجتماعی کوششوں کا سختی سے رد کیا۔پس حکومت اس کمیٹی کی سفارشات پر کوئی قانون سازی نہ کر سکی۔ [3] علما کی ان اجتماعی کوششوں کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ فقہ حنفی کے بعض ایسے مسائل کہ جن کی بنیاد پر قانون سازی میں عوام الناس کی مصالح کوبہت زیادہ ضرر پہنچنے کا اندیشہ تھا‘ میں حکومت نے دوسرے فقہی مذاہب کی آراء کو اختیار کرتے ہوئے کچھ جزوی قانونی ترامیم جاری کیں۔ پس 1902ء میں قانون نمبر25، اور 1923ء میں قانون نمبر 56 جاری ہوا جس میں شادی کی کم سے کم عمر کو متعین کیا گیا تھا۔اسی طرح 1929ء میں بھی قانون نمبر 25 جاری ہوا ۔ ان تمام قوانین کی وجہ سے عائلی زندگی مثلا نکاح، نفقہ، عدت، طلاق، نسب، مہر، حضانت اور مفقود الخبر وغیرہ سے متعلق بعض پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسائل حل ہو گئے۔1920ء میں صادر ہونے والا قانون اگرچہ مذاہب اربعہ سے لیا گیاتھا لیکن 1923ء اور 1929ء کے قانون میں تو مذاہب اربعہ کی قید بھی نہیں تھی بلکہ وہ بعض تابعین رحمہم اللہ اور دوسرے فقہی مذاہب کی آراء پر مبنی تھا۔ [4] مصری فقہاء میں بالخصوص اور اب تو عالم اسلام میں بالعموم یہ فکر بہت تیزی سے پھیل رہی ہے کہ تمام مذاہب اسلامیہ کو ایک ہی مذہب شمار کرتے ہوئے ان سے قانون سازی اور جدیدفتاوی میں استفادہ کیا جائے۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی عمد ہ رائے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے از بس ضروری قدم ہے۔معروف شامی فقیہ استاذ مصطفی الزرقاء رحمہ اللہ (متوفی 1999ء)لکھتے ہیں: ’’عصر حاضرکے بعض علما کا خیال یہ ہے کہ تمام فقہی مذاہب کے مجموعے کو شریعت اسلامیہ میں ایک بہت بڑے فقہی مذہب کے طور پرلیناچاہیے۔ان مذاہب میں سے ہر ایک مثلاًحنفی، شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ کو اس ایک بڑے عمومی مذہب میں ایسا ہی سمجھنا چاہیے جیسا کہ ایک انفرادی مذہب میں ایک ہی مذہب کے علما کے مختلف
[1] الزرقاء، مصطفیٰ أحمد، الدکتور، المدخل الفقهی العام:1/ 313، دار الفكر، بيروت ، 1967ء [2] الشثری، عبد الرحمن بن سعد، تقنین الشریعة بین التحلیل والتحریم:ص5،المكتبة الشاملة، المكة المكرمة [3] محمد زكي، عبد البر، الدكتور، تقنین الفقه الإسلامی:ص21، ادارة إحياء التراث الإسلامي، قطر