کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 34
معلوم کرنا آسان ہو۔حکومت مصر نے 1890ء میں اس کتاب کو شائع کیا۔ [1] جناب قدری پاشا رحمہ اللہ کی دوسری کتاب قانون وقف کے بارے میں تھی۔ انہوں نے وقف اور اس کے احکام کے بارے میں ایک اور قانون بھی وضع کیا جس کا نام انہوں نے "کتاب العدل والانصاف في حل مشکلات الأوقاف"رکھا۔یہ قانون 646 دفعات پر مشتمل تھا اور 1893ء میں طبع ہوا۔ [2] ان کی تیسری کتاب"قانون الأحوال الشخصیة"عائلی قوانین سے متعلق تھی۔ اس کے علاوہ حکومت مصر نے حنفی مذہب کے مطابق شخصی حالات کے شرعی احکام(یعنی عائلی قوانین) کی تدوین کاکام محمد قدری پاشا مرحوم کے سپرد کیا، چناچہ انہوں نے 647 دفعات کی ایک کتاب مرتب کی جس میں نکاح، طلاق، اولاد، نابالغ کی سرپرستی، حجر(روکنا)، ہبہ، وصیت اور میراث کے مسائل درج کیے اور وہ مصر اور دوسرے اسلامی ملکوں کی شرعی عدالتوں میں مستند قرار پائی۔ [3] 1920ء تک مصر کی عدالتوں میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے راجح ترین قول کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔مفتی سید عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں: ’’قانون ترتیب محاکم شرعیہ 1910ء کی دفعہ 280 کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے راجح ترین اقوال پر عمل کیا جاتا تھا لیکن قانون 25 (1920ء)میں قاضی کو اختیار دیا گیا کہ وہ نفقہ عدت مفقود وغیرہ معین مسائل میں امام مالک رحمہ اللہ اور اما م شافعی رحمہ اللہ کے اقوال پر بھی عمل کرنے کا مجاز ہے۔‘‘ [4] دوسری طرف تحریک سلفیہ شیخ جمال الدین افغانی رحمہ اللہ (متوفی 1897ء) اور شیخ مفتی محمد عبدہ رحمہ اللہ (متوفی 1905ء)کی وفات سے رکی نہیں بلکہ اس تحریک کو شیخ رشید رضا رحمہ اللہ (1865 تا1945ء) اور جامعہ ازہر کے شیخ مصطفی المراغی رحمہ اللہ (1881 تا 1945ء)کی صورت میں دو نئے امام مل گئے۔ان حضرات نے مصری قانون میں تمام مذاہب اسلامیہ سے استفادہ کی فکر کو جاری رکھا جس کی وجہ سے اسی دوران حکومت مصر نے مذاہب اربعہ کے کبار علما کی ایک کمیٹی بنادی۔ استاذ محمد سلام مدکور لکھتے ہیں: ’’حکومت مصر نے کبار فقہاء اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا پروگرام شروع کیا تا کہ وہ کسی معین مذہب کی تقلید کی بجائے تمام مذاہب اسلامیہ سے استفادہ کرتے ہوئے زمانے کے حالات و روح کے
[1] إبراهیم أمین وآخرون، المعجم الوسیط: 2/ 763، دار الدعوة، مصر، طبع اول، 1400ھ [2] وحید الدین زمان کیرانوی، مولانا، القاموس الوحید:ص1362، اداره اسلامیات، لاهور [3] القرضاوی، محمد یوسف، الدکتور، مدخل لدراسة الشریعة الإسلامیة:ص259، مؤسسة الرسالة، بیروت، الطبعة الأولى، 1993ء [4] الزحیلی، وهبة ، الدکتور، جهود تقنین الفقه الإسلامی:ص 26، مؤسسة الرسالة، بیروت