کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 33
(1849 تا1905ء) مفتی مصر نے جاری کی۔مذہب سلفیہ کا نصب العین یہ ہے کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے اور جمود اور خرافات اور مخالف دین بدعتوں اور ہر قسم کی اندھی تقلید کے خلاف جہاد کیا جائے۔انہیں اصولوں کی بنا پرمذہب سلفیہ کے لوگ اسلام میں مختلف مذاہب کا اتحاد چاہتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ کوئی اسلامی فرقہ ایک مذہب کے مقلدین کی تقلید کا بار برداشت نہیں کر سکتا اور نہ وہ اپنے امور خانگی اور مالی معاملات کی فلاح و بہبود کو ہر حالت میں صرف ایک مذہب کی کتابوں سے وابستہ کرنا پسند کرے گا۔‘‘ [1] مصر کے حکمران اسماعیل پاشا نے اسی تحریک سے متاثر ہو کر استاذ مونوری کو یہ کام سونپا کہ وہ فرانسیسی قانون کو مذہب امام مالک ﷫کے مطابق ڈھالیں۔ پس استاذ مونوری نے فرانسیسی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے مصر کے مدنی قوانین(civil laws)‘ بری و بحری تجارت کے قوانین، دعوی دائر کرنے کے قوانین،جرائم کی سزا اور ان کی تحقیق کے قوانین وضع کیے۔ [2] یہ قانون ’مخلوط قانون مدنی‘ کے نام سے 1875ء میں جاری ہوا۔ 1883ء میں ایک اطالوی استاذ موروندو نے حکومت کے کہنے پر’ملکی قانون مدنی‘ وضع کیا ۔ [3] تقنین کی ان کوششوں میں فقہ حنفی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عوام الناس میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ [4] کیونکہ اس قانون سازی سے پہلے مصر میں سلطنت عثمانیہ کا ’مجلہ الاحکام العدلیہ‘ نافذ تھا لیکن ’مجلہ الاحکام العدلیہ‘ کے بارے بھی بات واضح رہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ میں اس معنیٰ میں نافذ نہیں رہا کہ قاضیوں کے لیے اس سے اختلاف جائز نہ ہو۔ قاضی عملاً بعض مسائل میں ’مجلہ الاحکام العدلیہ‘ کے خلاف بھی فیصلہ دے دیتے تھے۔ایک طرف تو اسماعیل پاشا نے اس مجلے کو کالعدم قرار دیاجبکہ دوسری طرف نئی قانون سازی کے لیے بنیادبھی فقہ حنفی کی بجائے فقہ مالکی کو بنایا گیاتھا۔اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی ایماء پر معروف مصری فقیہ جناب محمد قدری پاشا رحمہ اللہ نے"مرشد الحیران إلى معرفة أحوال الإنسان"لکھی جو فقہ حنفی کے مذہب پر تھی۔یہ کتاب 1045 دفعات پر مشتمل ہے ۔اس کتاب میں ہر مسئلے کے بیان میں انہوں نے حواشی میں اس کے اصل مصدر کابھی تذکرہ کر دیاہے کہ جس سے انہوں نے وہ مسئلہ لیاتھاتاکہ جب بھی کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو تو ایک مدرس، محقق، استاذ یا جج کے لیے ان احکامات کی صحت ، ان کا مصدر اور ان کی قوت استدلال کو ان کے اصلی مصادر سے
[1] اسسٹنٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف ہیومینیٹیز، کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور ٭ یہ تحقیقی مقالہ راقم کے پی ایچ ڈی کے مقالہ ’’عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ (2010ء) کے باب اول سے ماخوذ ہے۔