کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 32
بعد اپنی ریاستوں میں اسلامی قانون سازی کی طرف قابل قدر نہ سہی لیکن کسی قدر پیش رفت ضرور کی ہے۔مصر، ایران، عراق، اردن، شام، انڈونیشیا، ملائیشیا، سوڈان، مراکش، تیونس، لیبیا، افغانستان اور پاکستان میں اس معاملے میں عائلی قانون سازی کی طرف خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ذیل میں ہم عالم اسلام کے تین نمائندہ ممالک مصر، سعودی عرب اور پاکستان میں عائلی قانون سازی کے حوالے سے ہونے والی سیاسی و آئینی جدوجہد کا ایک مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں۔ مصر میں قانون سازی کی تاریخ دوسری صدی ہجری میں امام شافعی رحمہ اللہ نے مصر کو اپنے جدید مذہب کی نشر و اشاعت کے لیے منتخب کیا اور قاہرہ ہی میں204ھ میں وفات پائی۔ فاطمی اسماعیلی حکمرانوں کے دور میں مصر کی عدالتوں میں شافعی مذہب کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ (1138 تا 1193ء) نے مصر پر حملے کر کے اسماعیلیوں کی حکومت ختم کر دی اور ایوبیہ خاندان کی حکومت قائم کی۔حکومت ایوبیہ کے دور اقتدار میں بھی شروع شروع میں فقہ شافعی ہی کا غلبہ رہا، جبکہ بیبرس نے اپنے زمانہ اقتدار(1308تا 1309ء) میں چارقاضی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی مقرر کیے لیکن ان میں بھی قاضی شافعی کو ترجیح ہوتی تھی اور عدالتوں میں فیصلے فقہ شافعی کے مطابق ہو رہے تھے۔دولت عثمانیہ کے نویں سلطان سلیم اول نے اپنے زمانہ خلافت(1514تا 1520ء) میں مملوک سلاطین کی اڑھائی سو سالہ حکومت ختم کر کے مصر پر قبضہ کر لیا۔دولت عثمانیہ کے دور میں مصر میں حنفی فقہ کے مطابق فیصلے ہوتے رہے۔ اسماعیل بن ابراہیم پاشا(1830تا 1895ء) نے 1863ء میں مصر کی حکومت سنبھالی اور سلطنت عثمانیہ کے حکمران سلطان عبد العزیز(1861تا 1876ء) کی طرف سے اسے ’خدیوی‘ کا خطاب دیا گیا۔1874ء میں مصر کے حاکم اسماعیل پاشا کی طرف سے ایک فرمان جاری ہواجس کے مطابق مصر عدالتی اور انتظامی لحاظ سے پوری طرح آزادہو گیا۔ [1] مصر میں اسی عرصے میں ایک اصلاحی تحریک بھی جاری تھی جو ’مذہب السلف الصالح‘ کی تحریک کہلاتی ہے۔اس تحریک نے بھی بعد ازاں مصر میں قانون سازی کے عمل پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی (متوفیٰ1986م) لکھتے ہیں: ’’مصر میں بھی جدید اصلاحی تحریک جاری تھی جو ’تحریک سلفیہ‘ یا ’مذہب السلف الصالح‘کی تحریک کہلاتی ہے۔یہ تحریک سید جمال الدین افغانی (1839تا 1897ء) اور ان کے بعد ان کے شاگرد استاذ امام شیخ محمد عبدہ
[1] سورة التوبة:9 :80 [2] صحيح البخاري،كتاب التفسير، باب لا تصل علي أحد منهم مات أبدا...: 4672 [3] صحيح البخاري،كتاب المغازي، باب حديث كعب بن مالك: 4418