کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 31
نہیں ہے۔لہٰذا اگر قاضی نے مذہب کے خلاف فیصلے کیے تو وہ مشروط ولایت کی وجہ سے معزول سمجھا جائے گا۔ ’شرنبلالیۃ‘ میں’ برہان‘ سے منقول ہے کہ یہ قول صریحاً حق ہے اور اس کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے۔ [1]
لیکن اگر حکمران مقلدقاضی کو معین مذہب کے ضعیف اقوال کے مطابق فیصلوں کا پابند بنائے تو ایسی شرط باطل ہوگی کیونکہ اس صورت میں مقلد قاضی، حق کے خلاف فیصلہ کرے گا، وہ حق کو مذہب کے صحیح قول میں محصور سمجھتا ہے جبکہ حکمران اس کو ضعیف قول کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا حکم جاری کر رہا ہے اور قاضی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جس کو وہ حق سمجھتا ہے، اس کے خلاف فیصلہ دے۔ [2] پس اس سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کے نزدیک بھی قاضی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ حکمران کے کہنے پر حق کے خلاف فیصلہ کرے،اس اعتبار سے یہ مسئلہ اجماعی ہو جاتا ہے۔
کیا ایک مجتہد قاضی کے لیے کسی مقدمے میں اپنے امام کی رائے کی پابندی لازم ہے یا اسے اپنے اجتہاد کی پیروی کرنی چاہیے؟ اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین کا اختلاف ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’کیا مجتہد قاضی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلے کرے؟ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق قاضی مجتہد کو اپنے سے بڑے فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے جبکہ صاحبین کے نزدیک اپنے سے علم میں بڑے فقیہ کی رائے کے مطابق فیصلہ کرناقاضی کے لیے جائز نہیں ہے۔وجہ اختلاف یہ ہے کہ کیا دو مجتہدین میں ایک کا زیادہ فقیہ ہونا کوئی راجح دلیل ہے ؟امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں یہ ایک راجح دلیل ہے کیونکہ اس کا اجتہاد، صحت سے زیادہ قریب ہو گاجبکہ صاحبین کے نزدیک یہ راجح دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک عالم کا دوسرے سے زیادہ فقیہ ہونا کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس کی طرف استنباط احکام میں رجوع کیا جائے۔‘‘ [3]اس فقہی جزئیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صاحبین کے نزدیک قاضی مجتہد کے لیے اپنے امام کی تقلید صرف اس صورت جائز ہے جبکہ وہ دلیل کی بنیاد پر ہو۔
عصر حاضر میں قانون سازی کی تاریخ
عصر حاضر میں مختلف اسلامی ممالک نے انگریزوں‘ فرانسیسیوں اور اتحادیوں سے آزادی حاصل کرنے کے
[1] صحيح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله تعالى:﴿ووهبنا لداود سليمان...﴾: 3424
[2] فتح الباري: 14/743
[3] صحيح البخاري،كتاب الجنائز، باب الثناء الناس علي الميت: 1368