کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 30
اگر حکمران نے اس شرط پر کسی کوقاضی بنایا تو یہ ولایت باطل ہو گی کیونکہ اس نے ایک باطل شرط کی بنیاد پر یہ عقد کیا پس یہ عقد بھی باطل ہوگا۔ [1] مذہب حنبلی حنابلہ کا موقف بھی یہی ہے کہ حکمران کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی قاضی کو کسی معین فقہ کے مطابق فیصلوں پر مجبور کرے۔ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ (متوفی 630ھ) لکھتے ہیں کہ حکمران کے لیے یہ بھی بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو اس شرط پر حکمران بنائے کہ وہ کسی معین مذہب کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ (متوفی 204ھ) کامذہب ہے اور مجھے اس مسئلے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس آپ لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرما دیں‘‘اور حق کسی ایک متعین مذہب میں محصور نہیں ہے۔بعض اوقات قاضی کو حق کسی دوسرے مذہب میں نظرآتا ہے۔پس اگرحکمران اس شرط پرکسی کو قاضی بنائے تو یہ شرط باطل ہوگی۔ [2] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جہاں تک سلطان کا اختلافی مسائل میں قاضی کو قرآن وسنت کی کسی دلیل کے بغیر مجرد کسی( امام) کے قول کا پابند کرنا ہے تو یہ باتفاق المسلمین جائز نہیں ہے۔ [3] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کو شرعاً ناجائز قرار دینے کے باوجود بعض مخصوص حالات میں فساد، بگاڑ اور ظلم سے بچنے کے لیے مجبوراً اس کی اجازت اس اصول پر دی ہے کہ دو فسادوں میں سے بڑے فساد کو دفع کرنے کے لیے حکمران کسی قاضی کو کسی معین مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند بنا سکتا ہے۔ [4] مذہب حنفی حنفیہ کے نزدیک اگر قاضی مقلد ہو تو حکمران اس کو معین مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند بنا سکتا ہے اور اگر قاضی اس پابندی کا التزام نہ کرے تو وہ اپنے عہدے سے معزول سمجھا جائے گا۔محمد امین بن عمر بن عبد العزیزعابدین رحمہ اللہ (متوفی 1252ھ) لکھتے ہیں کہ مقلد قاضی کو حکمران نے اس لیے ولایت دی تھی کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق فیصلے کرے۔ پس قاضی کے پاس اس مذہب کے خلاف فیصلے کرنے کا اختیار
[1] صحيح البخاري، كتاب الزكوة، باب أخذ الصدقة من الأغنياء و ترد في الفقراء حيث كان: 1496 [2] ابن حجر العسقلاني، أحمد بن علي، فتح الباری: 2/350، دار الكتب العلمية، بيروت، 1995م