کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 3
مقتضیٰ کی اقسام
مقتضیٰ کی درج ذیل تین اقسام ہیں:
1۔ جس پر صدق کلام موقوف ہو
1۔ صدق کلام کے لئے ضروری ہے کہ اسے مقدر واجب مانا جائےاور اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو کلام جھوٹ پر مبنی نظر آئے گا اور حقیقت کے خلاف واقع ہو گا۔ اس کی مثال یہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه" [1]
ظاہر کلام بتاتا ہے کہ امت سے ہر قسم کی خطا اور نسیان ختم کر دی گئی ہے اور یہ دونوں واقع نہیں ہوں گے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ تینوں چیزیں امت میں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ۔امت معصوم ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بتاتے ہیں ،وہ سچ ہے، لہٰذا لازمی طور کسی محذوف کو مقدر ماننا پڑے گا۔ پس یہاں لفظ " الإثم" کو مقدر مانا جائے گا۔
2۔ جس پر شرعاً صحتِ کلام موقوف ہو
اسے مقدر مانے بغیر شرعی طور پہ کلام کی درستی ممکن نہ ہو جیسے :﴿ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ١ ﴾ [2] بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ چاہے مریض یا مسافر نے روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں، وہ دوسرے دنوں سے گنتی پوری کریں گے لہٰذا تقدیراً عبارت یوں ہو گی: "أو على سفر فأفطر فعدة من أيام أخر"
3۔ جس پر عقلاً صحت کلام موقوف ہو
عقلی طور پر کلام کی درستی کیلئے اس کو مقدر تسلیم کرنا واجب ہے جیسے: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ ﴾ [3] عقل کی رو سےتحریم کی اضافت ذاتِ اُمہات کی طرف ممنوع ہے، پس یہاں اضمار ضروری ہے اور وہ ہے : "الوطء" یعنی: "حرم علیکم وطء أمهاتکم".
دلالت اقتضاء کی مثال
ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ ﴾ [4]