کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 28
رائے واجتہاد کو جبراً نافذ کرنے کے حق میں نہیں تھا۔
فقہائے متقدمین نے اس نکتے کے بارے مفصل بحث کی ہے کہ کیا کوئی خلیفہ کسی قاضی کو کسی خاص فقہی مذہب کی پابندی یا اس کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتاہے؟جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے حکمران کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی قاضی یا جج کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ کسی معین مذہبی رائے کے مطابق قضیوں کا فیصلہ کرےجبکہ فقہاء کے ایک گروہ کی رائے ا س کے برعکس ہے۔ذیل میں ہم دونوں گروہوں کے موقف اور دلائل کو بیان کر رہے ہیں۔
متقدمین کا تقنین کے بارے نقطہ نظر
پہلا قول جمہور علماے مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ اور اہل الحدیث کا ہے کہ کسی حاکم کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی قاضی کو کسی خاص مذہب کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند کرے۔ابن قدامہ رحمہ اللہ (متوفیٰ620ھ) نے اس قول پر علما کا اتفاق بھی بیان کیا ہے۔ یہ قول صاحبین کا بھی ہے [1]اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفیٰ728ھ) نے بھی اس قول پر علما کا اتفاق نقل کیا ہے۔ [2]
دوسرا قول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ( متوفیٰ150ھ) کی طرف منسوب ہے کہ جس کے مطابق کوئی حاکم کسی قاضی کو فیصلے کرنے میں کسی خاص مذہب کا پابند کر سکتا ہے۔ بعض مالکیہ اور شافعیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ [3]یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے اگرچہ بعض علما نے اس قول کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف بھی کی ہے۔ [4]
مذہب مالکی
مالکیہ کے معروف قول کے مطابق حاکم کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مجتہدقاضی کو کسی معین مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند بنائے۔اگر امام نے قاضی پریہ شرط عائد کر دی کہ وہ کسی معین مذہب کے مطابق یا امام کی اجتہادی رائے کے مطابق فیصلہ کرے گا تو بعض مالکیہ کے نزدیک یہ شرط باطل ہے لیکن عقد صحیح ہو گا جبکہ بعض کے نزدیک یہ عقد بھی مردود ہو گا۔ [5]
[1] صحيح البخاري،كتاب الإيمان، باب قول النبي الدين النصيحة لله و لرسوله...: 58
[2] صحيح البخاري، كتاب تقصير الصلاة، باب الصلاة بمنيً: 1083
[3] سورة النساء:4: 101
[4] صحيح البخاري، كتاب تقصير الصلاة، باب الصلاة بمنيً: 1082