کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 23
باب کےتحت وہ پانچ احادیث لائے ہیں، جن میں سے دو احادیث میں عدد کا ذکر موجود ہے۔ پہلی حدیث میں ہے: " لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى سَبْعِينَ امْرَأَةً... قَالَ شُعَيْبٌ وَابْنُ أَبِي الزِّنَادِ: تِسْعِينَ وَهُوَ أَصَح" دوسری حدیث میں لفظ ہیں: "قال أربعون" [1] معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ’مفہوم عدد‘ کو حجت مانتے ہیں، بشرطیکہ اس کا مفہوم موافق سے تعارض نہ ہو۔ واضح رہے بعض فقہا مفہوم عدد کے قائل نہیں ہیں، لیکن اکثریت کے نزدیک ’مفہوم عدد‘ حجت ہے،ان شرائط کے ساتھ جو کہ مفہوم مخالف کے لیے ضروری ہیں۔ [2] 12۔مفہوم عدد کی دلالت قطعی اور یقینی نہیں ہوتی، بلکہ احتمالی ہوتی ہے "كتاب الجنائز، باب ثناء الناس علي الميت" اس باب کے تحت حدیث کے الفاظ ہیں: ’’اسود کہتے ہیں کہ میں مدینہ پہنچا تو وہاں پر وبا پھیلی ہوئی تھی۔ میں حضرت عمر کے پاس تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ گزرا تو فوت شدہ کے متعلق اچھی بات کہی گئی۔ حضر ت عمر نے کہا: واجب ہو گئی۔ ایک اور جنازہ گزرا تو اس کی بھی تعریف کی گئی تو حضرت عمر نے کہا: واجب ہو گئی۔ پھر ایک تیسرا جنازہ گزرا تو اس کی مذمت کی گئی، تو حضرت عمر نے کہا :واجب ہوگئی۔ اسود نے پوچھا : یا امیر المومنین !کیا واجب ہو گیا؟ تو حضرت عمر نے فرمایا: میں نے ویسے ہی کہا ہے جیسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر چار لوگ کسی مسلمان کے اچھا ہونے کی گواہی دے دیں ،تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرماتے ہیں۔ میں نے کہا :اگر تین بھی گواہی دے دیں پھر بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں! میں نے کہا اگر دو گواہی دے دیں پھر بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو بھی۔ سیدناعمر فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔‘‘ [3] اس حدیث میں مفہوم مخالف کے بجائے’مفہوم موافق ‘ کا اعتبار کیا گیا ہے،اگر یہاں مفہوم مخالف کو لیا جائے تو حدیث کا مفہوم بہت عجیب صورت اختیار کر لے گا۔ اگر چار لوگوں کی گواہی کا ’مفہوم مخالف‘ لیں تو مفہوم یہ بنتا ہے کہ چار سے زیادہ کی گواہی میت کے جنت جانے میں مفید کے بجائے مضر ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ’مفہوم مخالف‘ مراد لینا عقلاً محال ہے۔ اسی بنا پر صحابہ نے بھی یہاں ’مفہوم مخالف‘ کے بجائے مفہوم موافق مراد لیا ہے۔ اسی لیے انھوں نے چار سے کم تین اور دو افراد کی گواہی سے متعلق دریافت کیا اور چار سے اوپر پانچ کا سوال نہیں کیا۔ ثابت ہوا کہ مفہوم عدد کی دلالت یقینی نہیں بلکہ احتمالی ہوتی ہے، اسی لیے صحابہ بار بار حضرت سے پوچھتے رہے ۔
[1] أصول الفقه للزكي شعبان: ص382 [2] سورة النور:24: 2 [3] سورة النور:24 : 4 [4] إرشاد الفحول: 2/610