کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 22
ہوجانے کے بعدکافر کو اس کا اسلام کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہی مومن کو اس کا عمل سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کے بعد فائدہ دے گا۔ اسی طرح ایمان اور عمل صالح حلق میں دم اٹکنے سے پہلے تک قابل قبول ہیں۔ یہ مفہوم یہاں’مفہوم صفت ‘سے اخذ کیا گیا ہے، یعنی ایمان اور عمل صالح کے قابل قبول ہونے کی اس شرط کی بنیاد ’مفہومِ صفت‘ ہے۔
10۔’مفہوم شرط ‘کو دلیل بنانے میں اختلاف ہے، لیکن اکثر اصولیین کے ہاں مفہوم شرط حجت ہے
"كتاب الزكوة، باب أخذ الصدقة من الأغنياء وترد في الفقراء حيث كان"
امام بخاری رحمہ اللہ اس باب کے تحت یہ حدیث لائے ہیں:
"... فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الله قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الله قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَة .... " [1]
اس حدیث سے بظاہر یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ اگر کفار اسلام قبول کر لیں تو نمازیں پڑھیں اور پھر زکوۃ کی ادائیگی کریں اور پھر بالترتیب دیگر احکامات پر عمل پیرا ہوں، لیکن حدیث کے ظاہر سے یہ مفہوم لینا درست نہیں ہے، کیونکہ’مفہوم شرط ‘کو دلیل بنانا مختلف فیہ ہے اور یہ استدلال کمزور ہے،کیونکہ دعوت میں ترتیب، وجوب احکام میں ترتیب کو لازم نہیں، جیسا کہ صلوۃ اور زکوۃ میں وجوب کے اعتبار سے ترتیب نہیں ہے اورنماز کی عدم ادائیگی سے زکوۃ کا اسقاط لازم نہیں آتا۔ اگر حدیث کے اس اسلوب سے ترتیب مراد نہیں ہے تو پھر یہ اسلوب اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ زکوۃ سب لوگوں پر فرض نہیں ہوتی، اس کے لیے بعض شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔اور اس کی ادائیگی سال کے بعد فرض ہوتی ہے، جبکہ نماز ایک دن میں پانچ مرتبہ ادا کرنا فرض ہے۔توہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے پہلے اہم ترین چیز کو بیان کیااور اس کے بعد اس سے کم اہم چیز کا تذکرہ کیا گیا ۔اور اس کو الگ الگ بیان کرنے میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اگر ایک ہی مرتبہ تمام چیزوں کا مطالبہ کر دیا جاتا تو نفور پیدا ہو سکتا تھا۔ واضح رہے کہ مفہوم شرط جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ [2]
11۔’مفہوم عدد‘ ضعیف ہوتا ہے، جبکہ منطوق میں اس کے معارض بات موجود ہو
"كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله تعالي: ﴿ ووهبنا لداود سليمان ....﴾ "
امام بخاری رحمہ اللہ یہاں پر اصولیین کے ایک اختلاف کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ ’مفہوم عدد‘ کی اصول فقہ میں کیا حیثیت ہے؟ انھوں نے ترجمۃ الباب میں سيدنا سلیمان کی بیویوں کی تعداد کے حوالے اپنا رجحان کسی طرف واضح نہیں کیا ہے، کیونکہ روایات میں ان کی تعداد کے بارے میں مختلف اعداد منقول ہیں۔ اس
[1] زكي الدين شعبان، أصول الفقه الإسلامي: ص 381، مؤسسة علي الصباح، الرياض، 1408ھ
[2] سورة المائدة:5 : 6
[3] سورة البقرة:2: 230