کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 20
"عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ الله وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَالوَقَارِ، وَالسَّكِينَةِ، حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ، فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمُ الآنَ. " [1] یہاں پر ’مفہوم غایت‘ کے لیے حتیٰ آیا ہے اور بعض شروط کے ساتھ مفہوم غایت جو کہ مفہوم مخالف کی ایک قسم ہے، حجت ہوتا ہے۔اور وہ شرط یہ ہے کہ مفہوم موافق اور مفہوم مخالف دونوں میں تعارض نہ ہو جیسا کہ بظاہر یہاں محسوس ہو رہا ہےکہ امیر کے آنے تک اللہ سے ڈرواور سنجیدگی اور وقار اختیا رکرو۔ یہاں یہ ’مفہوم مخالف‘ مراد نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ امیر کے آنے کے بعد اللہ سے ڈرنے یا سنجیدگی یا اطمینان کی ضرورت نہیں۔ پس یہ ’مفہوم‘ اس جگہ پر قابل حجت نہیں کیونکہ یہ ’مفہوم موافق‘ کے ساتھ ٹکرا رہا ہے۔ 6۔ مفہوم مخالف پر عمل کی شرائط میں سے ہے کہ منطوق کی قید’اتفاقی‘ کے بجائے ’احترازی‘ ہو "كتاب تقصير الصلاة، باب الصلاة بمنيً" امام بخاری رحمہ اللہ اس باب کے تحت تین احادیث لائے ہیں، جن میں حالت امن میں نماز قصر کا ذکر ہے۔ امام صاحب ان احادیث کو لا کر اس اصول کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ مفہوم مخالف کی قبولیت کے لیے جہاں دیگر شروط ضروری ہیں، وہاں ایک شرط یہ بھی ہے کہ منطوق مخرج غالب کے طور نہ لایا گیا ہو، کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں: ((صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آمَنَ مَا كَانَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ)) [2] ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حالت امن میں منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھائی ۔‘‘ قرآن کریم میں ہے: ﴿ وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا﴾ [3] ’’ اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو (خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔‘‘ امام بخاریٍ رحمہ اللہ کا اسلوب یہ بتاتا ہے کہ وہ قرآن کی اس آیت کے ’مفہوم مخالف‘ کے قائل نہیں ہیں،کیونکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں واضح طور موجود ہے کہ امن کی حالت میں بھی قصر کی جاسکتی تھی اور صحابہ کرام،جن کے فہم کلام میں کوئی دو رائے نہیں، بھی اس آیت کو مطلق لیتے تھے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصر سے متعلق سوال کے جواب میں فرمایاتھاکہ ’’یہ اللہ کا صدقہ ہے جو اللہ نے تم پر کیا ہے۔‘‘ [4] 7۔ جب تک پہلو متعین نہیں ہوگا ’مفہوم مخالف‘ پر عمل نہیں کیا جائے گا "كتاب مواقيت الصلاة، باب الصلوات الخمس كفارة"
[1] الوجیز في أصول الفقه: ص290 [2] البحر المحیط في أصول الفقه: 3/113 [3] سورة الحجرات:49: 6