کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 18
خاص مسئلہ کی طرف اشارہ فرمانا چاہتے ہیں۔ وہ مسئلہ یہ ہے: ((لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب))اس باب میں امام صاحب لفظ "صلاة "کے مجازی معنی سے یہ مسئلہ نکال رہے ہیں کہ چونکہ ایک رکعت کو بھی صلاۃ کہا جاتا ہے تو خود بخود مفہوم واضح ہوگا کہ سورۃ فاتحہ نماز کی ہر رکعت میں واجب ہے ۔اصل میں اس کے پس منظر میں امام صاحب کی وہ معلومات ہیں جو ان کے ذہن میں تھیں۔اس پرآپ نےمستقل تصنیف بھی فرمائی ہے، جو ان کےتبحر علمی کی دلیل ہے۔ امام صاحب کے سامنے اس مسئلہ سے متعلقہ تمام تر احادیث کے متون اور اسناد بالکل واضح تھے، جن میں سے ایک وہ اسی باب میں لے کر آئے ہیں کہ جس کے آخری الفاظ یہ ہیں:" وافعل ذلك في صلاتك کلّها" لیکن اس سے بھی زیادہ صریح وہ روایت ہےکہ جس کے الفاظ ہیں: "ثم افعل ذلك في كلّ ركعة" امام صاحب کا باب کے الفاظ سے استدلال صریح دلیل سے نہیں بلکہ مفہوم سے ہے، کیونکہ صریح احادیث صحیح بخاری کی شرط پر پورا نہیں اتر تی تھیں، لیکن ان روایات کا وجود بھی تھا اور امام صاحب کے علم میں بھی تھیں، اسی لیے انہوں نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ منطوق کے بجائے مفہوم سے مسئلہ اخذکر لیا جائے اور ساتھ ساتھ ضمنی طور پر یہ اشارہ بھی کر دیا جائے کہ بلا شبہ مسئلہ مفہوم سے اخذ کیا جا رہا ہے، مگر منطوق مفہوم سے مقدم ہوتا ہے۔ [1] 2۔جمہور کے نزدیک ’مفہوم‘ لفظکے لوازم میں سے ہوتا ہے "كتاب العمل في الصلاة، باب ما يجوز من التسبيح والحمد في الصلاة للرجال" امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب میں امام کے بھول جانے کی صورت میں تسبیح اور تحمید کے لیے ’رجال‘ کی قید لگائی ہے، کیونکہ اس کے بعد ایک دوسرا باب بھی لا رہے ہیں، جس میں ’تصفیق‘ (ہلکے انداز کی تالی بجانا) کے لیے ’نساء‘ کی قید ہے۔ امام صاحب نےان دو ابواب میں "رجال" اور "نساء" کی قید الگ سے اس لیے لگائی تاکہ مفہوم کی تعیین کی جا سکے،کیونکہ اگر یہ قید نہ لگائی جائے تو تسبیح اور تصفیق کا حکم مردوں اور عورتوں کے لیے ثابت ہو جاتا جو کہ شریعت کی منشا کے خلاف ہے۔اصل میں اس انداز سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں: "لا تسبيح إلا للرجال ولا تصفيق إلا للنساء" اس لیے کہ مفہوم لفظ کے لوازم میں سے ہوتا ہے، کوئی اجنبی چیز نہیں ہوتا۔ [2] 3۔مفہوم موافق مفہوم مخالف سے قوی ہوتا ہے "كتاب التوحيد، باب قول الله تعالي: ﴿ واللّٰه خلقكم و ما تعملون ﴾ .... " امام بخاری رحمہ اللہ مذکورہ ترجمۃ الباب سے معتزلہ کا رد فرما رہے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود
[1] الإحکام للآمدي: 2/210 [2] علم اصول فقہ ایک تعارف:2/307 [3] الأشقر، عمر سلیمان، الدكتور، الواضح في أصول الفقه للمبتدعين:ص121، الدار السلفية، الكويت، الطبعة الأولى، 1976ء [4] سورة لإسراء:17: 23