کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 16
’’حکم کا اسم علم یا اسم نوع کے ساتھ معلق ہونا مفہوم لقب کہلاتا ہے۔‘‘ یعنی منطوق میں حکم اگر کسی جنس یا نوع کے ساتھ خاص ہو تو اسے ویسا ہی مانا جائے جیسا وہ ہے۔ اور جب وہ اس جنس یا نوع کے ساتھ خاص نہ ہو تو اسے اس کے برعکس مانا جائے۔ مثالیں ۱۔ علم كی مثال کے حوالے سے قرآن میں یوں ارشاد ربانی ہے: ﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ﴾ [1] ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اس آیت میں ’محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اسم علم ہے اور اس آیت کا حکم یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اللہٰ کا رسول نہیں ہے یا یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ’محمد‘ نامی کوئی شخص اللہ کا رسول نہیں ہے۔ ۲۔ جنس کی مثال کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((الزكاة في البر)) [2]’’گیہوں میں زكوۃہے۔‘‘ یہاں "البر" اسم جنس ہے۔ اس حدیث کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ گیہوں کے علاوہ دوسری اجناس میں زکوۃ نہیں ہے۔ جمہور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مفہوم لقب میں مفہوم مخالف پر عمل جائز نہیں۔ گویا مفہوم مخالف کی یہ قسم تمام اصولیین بشمول حنفی علما حجت نہیں ہے۔ [3] مفہوم مخالف پر عمل کی شرائط مفہوم مخالف کی تمام قسمیں منطوق کے حکم کی نقیض بتاتی ہیں او رجو چیزیں مذکور نہیں ہیں ان کا حکم ثابت کرتی ہے، خواہ منطوق کا حکم مثبت ہو یا منفی۔ جو لوگ مفہوم مخالف کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس پر عمل کی شرط ہے کہ جس قید کے ساتھ اس حکم کو مقید کیا گیا ہے، اس کا کوئی دوسرا فائدہ نہ ہو، سوائے اس کے کہ منطوق میں جن چیزوں کا حکم بیان کیا گیا ہے، اس کی مسکوت سے نفی ہوتی ہو ۔پس جب وہ قید موجود نہ ہو تو حکم بھی موجود نہ ہو۔ اگر اس کے علاوہ کوئی دوسرا فائدہ ہو تو مفہوم مخالف حجت نہیں ہے اور اس پر عمل بھی مناسب نہیں ہے کہ یہ قید اکثری ہے یعنی یہ قید اس لیے لگائی گئی ہے کہ لوگوں میں عام طور پر ایسا ہوتا ہے یا رواج ہے۔ چنانچہ اگر قید احترازی نہ ہو تو مفہوم مخالف بالاتفاق حجت نہیں۔ اسی طرح اگر قید کا مقصد تکثیر اور مبالغہ ہو تو اس وقت بھی اس
[1] أبوداؤد،سلمان بن الأشعث، سنن أبي داؤد، كتاب الإيمان، باب كيف يصنع بالمحرم إذا مات: 3338، مكتبه دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثالثة، 2000ء [2] سورة المائدة:5: 38 [3] سورة الطلاق:65: 2 [4] البخاري، محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب التبسم والضحك: 6087، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، الطبعة الثالثة، 2000ء