کتاب: رُشدشمارہ 02 - صفحہ 11
آیت میں مذکور حکم والدین کو ’أف‘ نہ کہنا ہے، لیکن اس سے ان کو مارنے اور گالی دینے سے روکنے کا حکم بھی نکل رہا ہے، جس کی حرمت یقیناً ’أف‘ کہنے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کو قیاس اولیٰ بھی کہا جاتا ہے۔
2۔ لحن الخطاب
صاحب ’المہذب‘فرماتے ہیں:
"ما كان المسكوت عنه مساويا للمنطوق به" [1]
’’یعنی لحن الخطاب یہ ہے کہ مسکوت عنہ حکم مذکور کے برابر (مساوی) ہو۔‘‘
مفہوم موافق کی مثالیں
۱۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاوَ سَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا﴾ [2]
’’بلاشبہ جو لوگ بلا کسی حق شرعی کے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور عن قریب دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘
اس آیت کے مطابق یتیموں کا مال کھانا حرام ہے اور مفہوم موافق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کا مال جلانا، ادھر ادھر بکھیرنا اور پھینکنا یا کسی طریقے سے بھی تباہ و برباد کرنا حرام ہےکیونکہ یہ سارے کام بھی ظلم سے مال کھانے کے مترادف ہیں۔ اس میں مشترک علت یتیم کے مال پر زیادتی ہے۔ اس مثال میں جس واقع کا تذکرہ نہیں ہے وہ علت حکم میں مذکور حکم کے مساوی ہے۔
اگر کوئی شخص قسم کھا ئے کہ وہ اپنی بیوی کو نہیں مارے گا، پھر وہ اس کے بال کھینچے یا دانت سے اسے کاٹے تو وہ حانث ہو گا کیونکہ اگرچہ اس نے بیوی کو مارنے کی قسم کھائی ہے، لیکن مارنا، بال کھینچنے یا دانت سے کاٹنے کی سب صورتوں میں اذیت کا پہلو پایا جاتا ہے۔ لیکن اگر بال کھینچنا یا دانت کاٹنا الفت سے ہو تو پھر وہ حانث نہیں ہوگاکیونکہ اس میں اذیت کا پہلو نہیں پایا جاتا۔
۲۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ﴾ [3]
’’اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقہ عورت پر عدت واجب ہے تاکہ عورت کے رحم کے خالی ہونے کا یقین
[1] ابن حبان، أبو حاتم محمد البستي، صحیح ابن حبان: كتاب أخباره صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن مناقب الصحابة، باب ذكر الأخبار... ، رقم الحديث: 7219، الناشر مؤسسة الرسالة، بيروت، الطبعة الأولى، 1988
[2] سورة البقرة:2: 184
[3] سورة النساء:4: 23
[4] سورة النساء:4: 23
[5] Ibid, p.28
[6] Ibid, p.29
[7] Ibid, p.34