کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 42
شیخ محمد ابو زہرہ رحمہ اللہ (1394ھ)نے بھی یہی تعریف کی ہے لیکن احکام کے ساتھ ’عملی‘ کی قید کا اضافہ کیاہے اور اجتہاد کی دو قسمیں بنائی ہیں ایک استنباط احکام اور دوسرا ان احکام کی پیش آمدہ مسائل میں تطبیق کرنا ۔[1] ڈاکٹر صبحي صالح رحمہ اللہ (متوفی1986م)نے اس تعریف کو ایک نئے اسلوب سے بیان کیا ہے اور اس میں شرعی اور ظنی احکام کی قید کے ساتھ ساتھ عقلی‘ نقلی‘قطعی کی قید کا بھی اضافہ کیا ہے۔[2] مولانا محمد عبید اللہ اسعدی حفظہ اللہ نے بھی اس سے ملتی جلتی تعریف بیان کی ہے ۔ [3]
چھٹی تعریف
امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ (متوفی 505ھ)لکھتے ہیں:
"صار اللفظ في عرف العلما مخصوصاً ببذل المجتهد وسعه في طلب العلم بأحکام الشریعة والاجتهاد التام أن یبذل الوسع في الطلب بحیث یحس من نفسه بالعجز عن مزید" [4]
یعنی علما کے عرف میں یہ لفظ اس مفہوم کے ساتھ خاص ہے کہ شرعی احکام کے علم کی تلاش میں مجتہد کا اپنی صلاحیتوں کو لگادینا اجتہاد ہے۔اجتہاد تام یہ ہے کہ شرعی حکم کی تلاش میں مجتہد اپنی اتنی طاقت لگا دے کہ اس سے مزید کسی کوشش کی گنجائش سے اس کا نفس عاجزہو۔ علاء الدین عبد العزیز بن احمدالبخاری(متوفی 730 ھ)نے بھی اسی تعریف کو بیان کیاہے لیکن انہوں نے’مجتہد‘ کی قید نہیں لگائی اور اسے مقدر()ماناہے۔ [5]
اسی طرح ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ (متوفی 620 ھ)لکھتے ہیں:
"وهو في عرف الفقهاء مخصوص ببذل الجهد في العلم بأحکام الشرع" [6]
یعنی فقہا کی اصطلاح میں شرعی احکام کا علم حاصل کرنے میں اپنی صلاحیت کو کھپا دینے کے ساتھ یہ لفظ خاص ہے۔ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی’ مجتہد‘ اور’ فقیہ‘کی قید نہیں لگائی کیونکہ یہ بات فقہاء اور علما کے نزدیک معروف
[1] أبو زهرة الأستاذ، أصول الفقه: ص356، دار الفكر العربي، القاهره
[2] صبحي صالح الشیخ، معالم الشریعة الإسلامیة: ص32، دار العلم للملایین، بیروت،1975م
[3] اسعدی، محمد عبید اللہ، مولانا، اصول الفقہ: ص256، مجلس نشریات إسلام‘کراچی
[4] المستصفی: ص342
[5] بخاري، عبد العزیز بن أحمد علاؤ الدین الحنفي، کشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوي: 4/20، دار الکتب العلمیة، بیروت، الطبعة الأولى، 1418ھ
[6] ابن قدامة، عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة بن مقدام بن نصر الحنبلي المقدسي، أبو محمد موفق الدین، روضة الناظر وجنة المناظر:1/352، جامعة الإمام محمد بن سعود، الریاض، الطبعة الثانیة، 1399ھ