کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 35
عنصرکامطالعہ کریں گے ۔ تعریفات کا یہ احصاء یہ ثابت کرتا ہے کہ 12 صدیوں میں امت میں ’اجتہاد‘ کی اصطلاح ایک ہی معنیٰ ومفہوم میں مستعمل رہی ہے جبکہ تجدد پسند مکتبہ فکر نے بیسویں صدی عیسوی میں ’اجتہاد‘ کا ایک نیا معنیٰ ومفہوم متعارف کروایا اور اسے مسلم معاشروں میں رائج کرنے پر زور دیا۔ اس بارے مزید گفتگو ہم آگے چل کر کریں گے۔ پہلی تعریف اجتہاد کی سب سے پہلی تعریف جو تحریری شکل میں ہم تک پہنچی ہے وہ امام شافعی رحمہ اللہ (متوفی 204ھ)کی ہے۔امام صاحب نے اجتہاد کا معنی ’قیاس‘ بیان کیاہے ۔[1] امام شافعی رحمہ اللہ کی اس تعریف کو بعض دوسرے علما مثلاً ابن ابی ہریرۃ نے بھی اختیار کیاہے[2] لیکن امام غزالی رحمہ اللہ (متوفی 505ھ )،نے امام شافعی رحمہ اللہ کی اس تعریف کو ’خطا‘ قرار دیا ہے ۔[3] علما کی اکثریت کا موقف یہی ہے کہ اجتہاد اور قیاس میں فرق ہے اور یہ دونوں ایک ہی شیء نہیں ہیں۔ [4] امام شافعی رحمہ اللہ کی اس تعریف پر وارد ہونے والے اس اعتراض کے کئی ایک جوابات دیے گئے ہیں۔امام زرکشی رحمہ اللہ (متوفی794ھ)کے بقول ’’علما کے عرف میں اجتہادسے مراد اس چیز کا حکم معلوم کرنا ہے جس کے بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں اس قسم کے مسائل کا حکم صرف اسی صورت معلوم ہو گا جبکہ فرع کو اصل پر محمول کیا جائے گا اور یہی امام صاحب کے نزدیک قیاس بھی ہے۔‘‘[5] ڈاکٹرعمر سلیمان اشقر حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے قیاس کو اجتہاد کہہ کرمبالغے کا ارادہ کیا ہے کیونکہ اجتہاد کے مباحث میں سے اہم ترین بحث قیاس کی ہے۔ اس اسلوب کلام کی مثال اللہ کے رسول کی وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے قیام کو’حج ‘ کہا ہے۔‘‘ [6] ہمارے نزدیک امام شافعی رحمہ اللہ کی عبارات اس مسئلے میں بالکل واضح ہے کہ وہ قیاس اور اجتہادمیں فرق کسی
[1] شافعي، محمد بن إدریس الإمام، الرسالة: ص477، دار الکتب العلمیة، بیروت [2] زرکشي، بدر الدین محمد بن بهادر الشافعي، البحر المحیط في أصول الفقه:4/9، دار الکتب العلمیة، بیروت، 1421ھ [3] الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد، المستصفى في علم الأصول: ص281، دار الکتب العلمیة، بیروت، الطبعة الأولى، 1413ھ [4] البحر المحیط: 4/9 [5] ایضاً [6] أشقر، عمر سلیمان، الدکتور، القیاس بین مؤیدیه ومعارضیه: ص20، الدار السلفية، کویت