کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 34
ہے۔‘‘ [1]مجد الدین فیروز آبادی رحمہ اللہ نے بھی اس کا معنی مشقت بیان کیاہے۔[2] علامہ زبیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر یہ صرف فتحہ کے ساتھ ہو توا س کامعنی مشقت ہی ہوتا ہے۔[3] جبکہ علامہ احمد الفیومی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ایک قول یہ بھی ہے کہ فتحہ کے ساتھ اس کا معنی مشقت ہے۔‘‘ [4]
تیسرا معنی : انتہا
ابو منصور زہری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابن سکیت نے کہا ہے کہ ’جہد‘ سے مراد’انتہاء‘ ہے۔ [5]ابن أثیر الجزری رحمہ اللہ لکھتے ہی کہ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد مبالغہ اور انتہاء ہے ۔‘‘[6] علامہ أحمد الفیومی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر ’جہد‘ فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی انتہاء اور غایت بھی ہوتا ہے۔ [7]
چوتھا معنی : کوشش کرنا
ابن اثیر الجزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’اور ایک قول یہ بھی کہ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ] اور ’جہد‘[فتحہ کے ساتھ] دونوں ہی کوشش کے معنی میں استعما ل ہو جاتے ہیں۔‘‘[8] ڈاکٹرابراہیم أنیس‘ ڈاکٹر عبد الحلیم منتصر‘ عطیہ الصوالحی اور محمد خلف اللہ احمد لکھتے ہیں:’’ ’جہد‘باب ’فتح‘سے کوشش کرنے کے معنی میں ہے اور کہا جاتا ہے: جهد في الأمر کہ اس نے فلاں کام میں کوشش کی۔ [9]
روایت پسند علما کاتصور اجتہاد
مختلف ادوار میں روایت پسند علما نے اجتہاد کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں ۔ذیل میں ہم ان تعریفوں کا ایک تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے تصورِ اجتہاد کے تاریخی ارتقاء ، ان تعریفات کے اختلاف تنوع اور متفق علیہ جوہری
[1] لسان العرب:3/ 133۔135
[2] ترتیب القاموس المحیط:1/ 545
[3] تاج العروس من جواهر القاموس: 7/ 534
[4] المصباح المنیر: ص62
[5] تهذیب اللغة:6/ 26
[6] النهایة في غریب الأثر:1/ 848
[7] المصباح المنیر: ص62
[8] النهایة في غریب الحدیث والأثر: 1/ 848
[9] إبراهیم أنیس الدکتور، محمد خلف الله أحمد، عبد الحلیم منتصر، الدکتور، عطیه الصوالحی، المعجم الوسیط: 1/ 142، دار الدعوة، مصر