کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 33
’جُهد‘ دونوں سے مراد طاقت ہے ۔ [1] مجد الدین فیروز آبادی رحمہ اللہ (متوفی 816ھ)نے کہا ہے کہ ’جَهد‘سے مراد طاقت ہے اور یہ ضمہ کے ساتھ ’جُهد‘ بھی آتا ہے۔ ‘‘[2] علامہ زبیدی رحمہ اللہ (متوفی 1205ھ)لکھتے ہیں کہ’جہد‘ کا لفظ فتحہ اور بعض اوقات ضمہ کے ساتھ طاقت کے معنی میں مستعمل ہے۔ ‘‘ [3] احمد الفیومی رحمہ اللہ (متوفی770ھ)نے کہاہے کہ ضمہ کے ساتھ ’جُهد‘ کا لفظ اہل حجاز کی زبان میں معروف ہے جبکہ فتحہ کے ساتھ ان کے علاوہ عرب کی زبان میں ہے۔ اور اس لفظ کا معنی طاقت ہے۔‘‘ [4]
دوسرا معنی : مشقت
امام خلیل الفراہیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ’جُهْد‘ اس تھوڑی سی چیز کو کہا جاتا ہے جسے ایک مفلس انسان سخت مشقت سے حاصل کرتا ہے۔[5] ابو منصور ازہری رحمہ اللہ نے لیث کے حوالہ سے ’جُهْد‘ کا یہی معنی بیان کیا ہے۔[6] علامہ زمخشری رحمہ اللہ (متوفی538ھ)کے بقول ’أصابه جهد‘ کا معنی اسے مشقت پہنچی ہے۔[7] امام ابن فارس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’جُهْد‘سے مراد طاقت ہے اور ’مجہود‘ وہ دودھ ہے کہ جس کا مکھن نکال لیا گیا ہو اور یہ مکھن بغیر مشقت اور تھکاوٹ کے نہیں نکلتا۔[8] ابو نصر اسماعیل الجوہری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ’جَهْد‘سے مراد مشقت ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں: ’جهدت اللبن‘ یعنی میں نے دودھ میں سے پورا مکھن نکال لیا ۔ [9]
ابن سیدہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ’ جَهْد‘ سے مراد مشقت ہے۔[10] ابن اثیر الجزری رحمہ اللہ نے بھی ’جَهْد‘سے مراد مشقت لی ہے ۔ ‘‘[11] ابن منظور افریقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’جَهد‘ سے مراد مشقت
[1] ابن منظور، جمال الدین محمد بن مکرم الأفریقي، لسان العرب: 3/ 133۔135، دار صادر، الطبعة الأولى، بیروت
[2] زاوي، الظاهر أحمد، ترتیب القاموس المحیط: 1/545، دار عالم الکتب، الریاض
[3] زبیدی، محب الدین محمد بن محمد مرتضی ، تاج العروس من جواهر القاموس:7/ 534، دار الهدایة
[4] الفیومي، أحمد بن محمد بن علي المقري، المصباح المنیر: ص62، المکتبة العصریة
[5] کتاب العین: ص160
[6] تهذیب اللغة:6/ 26
[7] زمخشری، محمود بن عمر بن أحمد، أساس البلاغة: ص254، القاهرة، مطبعة المدني
[8] معجم مقاییس اللغة: ص227
[9] تاج اللغة وصحاح العربیة:2/ 4630۔461
[10] المحکم والمحیط الأعظم:4/ 153
[11] النهایة في غریب الحدیث والأثر: 1/848