کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 30
ہونے سے بچایا جائے اور یہ علت بھی ممکن ہے کہ کھانا کم ہونے کی صورت میں کھانے کی اہانت کا اظہار نہ ہو۔ ان متنوع احادیث سے ثابت ہے کہ ایک ہی حکم کی کئی علتیں ہو سکتی ہیں ۔علاوہ ازیں یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک علت کے منصوص ہونے کی صورت میں دیگر علتوں کی نفی نہیں ہو جاتی اور یہی وہ ضابطہ ہے جس کی طرف امام صاحب اشارہ فرما رہے ہیں۔اس کے علاوہ انگلیوں کے چاٹنے میں کراہت کے تصور کو بھی ختم کرنا مقصود ہے۔ [1] بل کہ اب تو میڈیکل سائنس بھی اس کی تائید کررہی ہے کہ انگلیوں کی پوروں پر ایسے انزائم ()پائے جاتے ہیں جو انسان کے عمل انہضام کے لیے نہایت مفید ہیں۔
آخر میں اصطلاحات کے حوالہ سے ایک مغالطہ دور کرنا بھی مناسب ہے، عام طور متقدمین کی اصطلاحات متاخرین ضرور استعمال کرتے ہیں،لیکن ضروری نہیں ہوتا کہ متاخرین کے ہاں طے کردہ تمام تفصیلات متقدمین کے ہاں بھی اسی طرح طے شدہ اور مسلمہ ہوں۔ پس ائمہ سلف اپنے متاخرین کی اصطلاحات کے پابند نہیں ہوتے اور ان میں گہرائی وگیرائی زیادہ ہوتی ہے، جب کہ متاخرین فنی جزئیات کو نئی نئی اصطلاحات سے نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت سی جزئیات جو متقدمین کے ہاں اختلافی ہوتی ہیں ، متاخرین ان میں سے کسی ایک کو لے کر اس پر مبنی اصطلاح وضع کر لیتے ہیں ۔ متقدمین کو متاخرین کی جامع مانع اصطلاحات یا فنی جزئیات کا قائل بنا کر پیش کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے ۔ وہ اصولی مسائل جو متقدمین کے ہاں اختلافی رہے ہیں، متاخرین بعض اوقات نئی نئی اصطلاحات کے ذریعے ان مسائل اور افکار کا بھی احاطہ کر رہے ہوتے ہیں جو متقدمین کے ہاں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ بھی واضح رہے کہ احوال وزمانہ کے عرف کی رو سے بسا اوقات شریعت کا اطلاق بدلا ہوا نظر آتا ہے اور یہ فقہ الواقع کا اختلاف ہے نہ کہ فقہ الاحکام کی تبدیلی۔ مناسب یہ ہے کہ امام بخاری کے افکار پر بحث کرتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔
خلاصہ بحث
مختصر بات یہ ہے کہ امام بخاری قیاس کی حجیت کے قائل ہیں۔ اور اسے شریعتِ اسلامیہ کے چوتھے مآخذ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم اس کے استعمال سے وہ انتہائی گریز برتتے ہیں۔ وہ قیاس کے ذریعے استدلال کرنے کے لیے کڑی شرائط و قیود عائد کرتے ہیں۔ جس میں علت قیاس کا منصوص، بدیہی اور بنفی الفارق وغیرہ ہونا شامل ہیں۔
[1] صحیح البخاري، كتاب الأطعمة، باب لعق الأصابع ومصها قبل أن تمسح بالمنديل: 5456