کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 29
مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اگر فرع علت کےاعتبار سے اصل سے زیادہ ہو تو اس کی زیادتی کے بقدر احکام وارد ہوں گے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یوں باب باندھتے ہیں: "كتاب الفرائض، باب الولد للفراش حرة كانت أو أمة" [1] اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ فرع کے اندر علت کی زیادتی کے بقدر احکام دئیے جانے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں،اس لیے کہ فراش متقاضی تھا کہ ’’(حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی)عبد کو نسب کے اعتبار سے سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ کےوالد زمعہ کے ساتھ ملایا جائے جب کہ مشابہت عتبہ کےساتھ ملانے کاتقاضا کرتی تھی۔ اس میں الحاق کے باوجود ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو حجاب کا مزید حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علت فرع کے اندر اصل کی نسبت زیادہ پائی جا رہی ہے۔ اسی بنا پر دوسرے حکم (حجاب)کا اضافہ کیا گیا اور وہ یہ کہ حضرت سودہ سے کہا گیا کہ آپ عبد سے حجاب فرمائیں۔‘‘ فارق کی موجودگی میں قیاس درست نہیں ہوگا۔ "كتاب الصوم، باب الصائم إذا أكل أو شرب ناسيا" امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃالباب میں حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی110ھ)اور مجاہد رحمہ اللہ (متوفی104ھ)کا قول نقل کیا ہے کہ اگر کسی نے بھول کر جماع کر لیا تو اس پر کچھ نہیں ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ نے اس ترجمۃ الباب پر کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔ اور نہ ہی کوئی ایسی روایت لائے ہیں جس سے یہ اشارہ ملتا ہو کہ بھول کر جماع کر لینے سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی انداز تقاضا کرتا ہے کہ جماع کو اور کھانے پینے کو ایک ہی حکم نہ رکھا جائے۔ اس لیے کہ قیاس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پر کوئی فارق نہ پایا جائے۔ اور یہ بالکل واضح ہے کہ بھول کر جماع کرنے کی حالت کو کسی بھی صورت میں بھول کر کھانے پینے کی حالت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ جماع کی حالت میں قصور واقعی ہے۔ نتیجتاً یہ چیز فارق ہے اور فارق کی صورت میں قیاس متعذر ہوتا ہے۔ [2] اگر ایک حکم کی دو علتیں ہوں تو نص میں ایک علت کا ذکر دوسری علت کی نفی نہ ہو گا ۔ "كتاب الأطعمة، باب لعق الأصابع ومصها قبل أن يمسح بالمنديل" اس بات کو بتانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ ایسی حدیث لائے ہیں جس میں حکم کی ایک علت کو بیان کیا گیا ہےکہ کھانے کے بعد کھانے والا اپنی انگلیوں کو خود چاٹ لے یا کسی دوسرے سے چٹوا لے۔ مگر اس کا مقصد یہ نہیں کہ اس حکم کی یہی ایک علت ہے۔ ایک حکم کی ایک سے زیادہ علتیں بھی ہو سکتی ہیں جیسا کہ مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ چاٹنا یا چٹوانا ہی اصل مقصد نہیں ہے بل کہ علت یہ بھی ہے کہ کھانے کی برکت کو ضائع
[1] صحیح البخاري، كتاب الفرائض، باب الولد للفراش حرة كانت أو أمة [2] صحیح البخاري، كتاب الصوم، باب صائم إذا أو شرب ناسيا: 1933؛ فتح الباری:5/196