کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 28
علت كے زوال سے حکم کا زوال لازم ہے مگر علت کی واپسی سے اسی حکم کی واپسی ضروری نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے ایک باب کے الفاظ ہیں:
"كتاب الأضاحي، باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي، و ما يتزود منها" [1]
امام بخاری رحمہ اللہ اس باب کے تحت آنے والی روایات میں اس وجہ کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں جن کی بنا پر مدینہ والوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے ایک دفعہ روکا گیا تھا۔ اس میں یہ علت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود ارشاد فرمائی ہے کہ اس سال خانہ بدوش لوگوں کی بکثرت آمد کی وجہ سے تنگی ہو گئی ہے ۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا۔ جس سے ثابت ہوا کہ اس مخصوص علت کی بنا پر یہ حکم تھا لیکن آج کے دور میں اگر وہی علت واقع ہو جائے تو کیا صرف وہی حکم ہوگا؟ ا س کا جواب یہ ہے کہ آج کے دور میں مفلسی اورمحتاجی سے نبرد آزما ہونے کےطریقے بہت سے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے: ’’ہمیں کھجور کھانے سے غرض ہونی چاہیےنہ کہ درخت گننے سے‘‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ اسی علت کے لوٹ آنے سے صرف اسی حکم کی واپسی ضروری نہیں ہوگی۔دراصل امام صاحب بعض متشدد لوگوں کے اس ضابطے پر نقد کر رہے ہیں کہ وہی حکم علت کے ساتھ عدماً اور وجوداً لازمی طور پر لوٹ آتا ہے۔
اسی طرح یہ کہ قیاس کی درستی کےلیے یہ شرط نہیں کہ فرع ہر اعتبار سے اصل کے مساوی ہو۔
بعض اوقات اصل میں ایسے امتیازات ہوتے ہیں جو کہ فرع میں موجود نہیں ہوتے البتہ اصل اور فرع میں صرف علت کی مشارکت کافی ہے۔ جیسے تھنوں میں دودھ کی حفاظت کو بند خزانے کے ساتھ ملحق کر کے وہی حکم لگا دیا جائے ۔ وجہ یہ ہے کہ دونوں کا مالک کی اجازت کے بغیر لینا منع ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب کے الفاظ یوں باندھے ہیں:
"كتاب في اللقطة، باب لا تحتلب ماشية أحد بغير إذنه " [2]
امام بخاری رحمہ اللہ یہاں پر باب اور حدیث کی مطابقت میں قیاس کا سہارا لیتے ہوئے قیاس کے انتہائی باریک معاملات کی طرف تنبیہ فرمارہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اصل اور فرع میں ہر اعتبار سے مساوات یا مطابقت ضروری نہیں ہوتی کیوں کہ بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ اصل کے اندر کوئی اضافی خوبی ہوتی ہے مگر اس خوبی کا قیاس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اس کا فرع میں نہ پایا جانا نقصان نہیں دیتا لیکن اصل صفت میں اشتراک ضروری ہے۔ جیسا کہ امام صاحب نے تھنوں کو مقفل خزانہ کے ساتھ ملا دیا ہے کیوں کہ دونوں جگہوں پر مشترکہ وصف ہے ۔ مالک کی اجازت کے بغیر دونوں میں تصرف حرام ہے۔ اگرچہ تھن ’حرز‘ کے حساب سے خزانہ کا
[1] صحیح البخاري، كتاب الأضاحي، باب ما يؤكل من لحوم الأضاحي و ما يتزود منه
[2] صحیح البخاري، كتاب في اللقطة، باب لا تحتلب ما شية أحد بغير إذنه: 2435؛ فتح الباری: 6/114