کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 27
وہ کتاب وسنت کے موافق ہو۔ اگر کوئی قیاس ایسا ہے جو کتاب وسنت کی تعلیمات کے خلاف جا رہا ہے تو وہ قیاس فاسد ہے اسی طرح اگر اہل علم میں کسی مسئلہ میں قیاس کرتے ہوئے نتائج میں اختلاف ہو جائے تو ان جمیع قیاسات کو کتاب وسنت پر پیش کرنا چاہیے اور جو قیاس بھی کتاب وسنت کی تعلیمات کے زیادہ موافق ومناسب ہو گا وہی قیاس صحیح قرار پا ئے گا ۔ کسی بھی قیاس کی صحت کا معیاریا بنیاد اس کی کتاب وسنت کے ساتھ موافقت و مناسبت ہے ۔ اس لیے قیاس کوئی نئی شے ایجاد نہیں کرتا بل کہ شریعت کی وسعتوں کا ہی اظہار کرتا ہے۔ اہل علم کا یہ قول معروف ہے کہ قیاس موجد ومنشی شریعت نہیں ہے، بل کہ مظہر شریعت ہے کیوں کہ ہمارے تمام پیش آمدہ مسائل اور ان کے اختلافات کا حل اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے:
﴿ وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗ اِلَى اللّٰهِ﴾ [1]
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ ﴾ [2]
’’اگر کسی بھی مسئلہ میں تمہارے مابین نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو۔‘‘
یہاں لفظ شيء نکرہ ہے اور نکرہ جب نفی واستفہام یاشرط کے سياق میں ہو تو عموم کے لیے نص ہوتا ہے۔ پس انسانوں کا باہمی اختلاف یا حکام سے نزاع دونوں 'شیئ' میں داخل ہیں۔ ان تمام قسم کے نزاعات کا فیصلہ کتاب وسنت ہی سے ہو گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ اور قیاس ورائے
امام بخاری رحمہ اللہ کے بعض ظاہری الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ وہ حجیت قیاس کے قائل نہیں لیکن تتبع اور استقصا کے بعد پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک حجیت قیاس ایک مسلمہ امر ہےکیوں کہ ان کی وہ عبارتیں جو قیاس کی مذمت میں وارد ہیں وہ دراصل ایسے قیاس کے بارے میں ہیں جس کے اندر تکلف سے کام لیا جائے، یعنی جو قیاس نص کے مقابلے میں ہو۔
صحیح بخاری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا منہج و اُسلوب یہ ہے کہ وہ ایک باب باندھتے ہیں پھر اس کے ترجمۃ الباب یا محل استدلال میں ایسی نصوص لاتے ہیں جو بذاتِ خود اس باب کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں۔ اس صورت میں قیاس کو بروئے کار لائے بغیر مذکورہ روایات سے مبینہ حکم نکلتا ہی نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے تصور قیاس کی عمومی توضیح کے بعد ذیل میں ہم ان کی ایسی عبارات ، اسالیب و اشارات کی طرف راہنمائی کرنا چاہتے ہیں جن میں انہوں نے ہمارے مطابق قیاس سے استدلال فرمایا ہے۔
[1] الشوریٰ 42: 10
[2] النساء4: 59