کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 26
امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ ابواب کے تحت بیان کی گئی احادیث پر غورکیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ ان کی مرادکو واضح کرنے میں بہت ہی مناسب ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جن دو احادیث کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک وہی ہے جس میں حج کو قرض پر قیاس کیا ہے۔ [1]یہ اصل مبین ایسی تھی جو سائل کے لیے صریح تھی اور اس کے مشاہدے کے مطابق تھی ۔ لہٰذا اس کے لیے اس تشبیہ سے شرعی حکم کی تفہیم آسان ہو گئی۔جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل فریضہ بھی تبیین ہی تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ وَ اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ ﴾ [2] ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر کو نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کے لیے اس کی تبیین فرما دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ ‘‘ قیاس کا کتاب وسنت سے ارتباط امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں کتاب 'الاعتصام بالکتاب والسنۃ ' میں قیاس کا ذکر کیا ہے۔جس سے امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ قیاس کو کتاب وسنت ہی سے مربوط کیا جائے اور یہ کوئی کتاب وسنت سے باہر کی شے نہیں ہے۔ جو قیاس کتاب وسنت کا ہی اطلاق ہو امام صاحب اس قیاس کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ قیاس کے اصول کے بارے میں یہ خدشہ ضرور رکھتے ہیں کہ اسکی حیثیت دین میں ایک آزادانہ رائے کی نہ بن جائے۔ اس لیے ان کی شعوری کوشش یہ ہے کہ قیاس کو کتاب وسنت (شریعت)کی وسعتوں اور گہرائیوں میں شامل کر لیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے قیاس کو کتاب وسنت کے ساتھ اس طرح باندھ دیا ہے کہ جب تک یہ کتاب وسنت سے ہی ماخوذ ہو گا اس میں خیر کا پہلو رہے گا اور جب یہ کتاب وسنت کے دائرہ سے آزاد ہو جائے گا تو یہ ایسی رائے کہلائے جانے کا مستحق ہو گا جو مذموم ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ امام صاحب قیاس در قیاس کے حق میں بھی نہیں ہیں، جیسا کہ امام شافعی اور امام احمد رحمہا اللہ سے بھی ایسے قیاسات کی شناعت میں اقوال مروی ہیں۔ [3] وہ ایسے قیاس کے قائل ہیں جس کی بنیاد کتاب وسنت ہو۔ اگر کسی قیاس کی بنیاد کتاب وسنت کے علاوہ اس سے خروج کے رستوں کے حامل اصول ہوں مثلاً ایسا استحسان کہ جس کی سند محض انفرادی رائے ہو یا عام اشخاص کی آرا وغیرہ، تو یہ کتاب وسنت سے ماخوذ قیاس شمار نہیں ہو گا اور امام صاحب کی نظر میں معتبر بھی نہ ہو گا۔ اس نقطے کو یوں بھی اجاگر کیا جا سکتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ قیاس کو کتاب وسنت کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے انہیں قیاس کے لیے معیار قرار دے رہے ہیں۔کسی قیاس کی صحت کا دعوی اسی صورت ممکن ہے جب کہ
[1] صحیح البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب من شبه أصلا معلوما: 7315 [2] النحل16: 44 [3] ابن قيم الجوزية، شمس الدين محمد بن أبي بكر، أعلام الموقعين عن رب العالمين: 2/284، دارالكتب الحديثة، مصر، 1389ھ