کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 25
میں موجود ہے [1] اور اس حرمت کی وجہ جب اہل علم نے تلاش کی تو وہ نشہ تھی۔ اب شراب کے علاوہ بھی جہاں نشہ پایا گیا وہاں شراب کا حکم لاگو کر دیا گیا۔ اصل، فرع، علت اور حکم ان چار چیزوں کو جمہور اہل علم کے ہاں ارکان قیاس کہتے ہیں۔ [2] امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی’ الجامع‘ میں"باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبیّن قد بین اللّٰه حکمهمالیفهم السائل" کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے۔اس باب کے عنوان پر غور کرنے سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک دین میں صرف مشابہت ظاہری کافی نہیں، بل کہ علت موثرہ ہونی چاہیے۔
مشبہ اور مشبہ بہ دونوں اس اعتبار سے اصل ہیں کہ دونوں کا حکم شرع میں موجود ہے۔ ایک جگہ واضح اور مبین ہے جب کہ دوسری جگہ مخفی یا مبہم ہے ،کیوں کہ قیاس کی حیثیت ایجاد حکم کی نہ ہونے کی بنا پر امام صاحب کے نزدیک مقیس اور مقیس علیہ دونوں اصل قرار پاتے ہیں۔ ان میں ایک اصل اور دوسرا فرع نہیں ہوتا۔
ایک اصل صرف معلوم ہے جس کا حکم واضح نہیں جب کہ دوسری اصل شرع میں واضح طور پر مبیّن ہے۔
دونوں اصل کاحکم اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے۔گویا قیاس کوئی نیا حکم پیدا نہیں کرتا ،صرف اظہار کا کام کرتا ہے۔
اصل معلوم کو اصل مبین کے ساتھ تشبیہ دینے کا مقصد ایجاد حکم نہیں ہوتا بل کہ دونوں اصلوں پر اللہ کے بیان کردہ حکم کو سائل کی تفہیم کے لیے آسان بنانا ہے۔
اسی مفہوم کو واضح کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد رشید امام نسائی رحمہ اللہ (متوفی303ھ۔915 م)نے اپنی سنن میں "باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبهم قد بین اللّٰه حکمهما لیفهم السائل"کے عنوان سے باب باندھا ہے۔ [3] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نسائی رحمہ اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس عبارت کو ترجیح دی ہے جو امام نسائی رحمہ اللہ نے لکھی ہے کیوں کہ ان کے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود امام نسائی رحمہ اللہ کی عبارت سے زیادہ بہتر طور واضح ہو رہا ہے۔ [4]امام نسائی رحمہ اللہ نے دونوں کو اصل تو قرار دیا ہے لیکن ایک کو اصل معلوم جب کہ دوسرے کو اصل مبہم قرار دیا ہے۔
[1] المائدة5 :90
[2] الشوكاني، محمد بن علي، إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول: 2/104، دار الكتاب العربي، بيروت، الطبعة الاولى، 1999ء
[3] فتح الباری: 13/296۔297
[4] فتح الباری:13/297