کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 24
فرماتے ہیں۔ امام صاحب نے 'الجامع' میں" باب تعلیم النبي صلی اللہ علیہ وسلم أمته من الرجال والنساء مما علمه اللّٰه لیس برأی ولاتمثیل" ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے مرد وزن کو وہی کچھ سکھلایا جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات نہ محض رائے ہے اور نہ تمثیل‘‘ کے نام سے عنوان قائم کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد رائے یا تمثیل پر مبنی نہ ہوتا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم تھی جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔
مذکورہ بالا بحث سے واضح ہو گیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمہور اہل علم کی طرح قیاس صحیح اور رائے محمود کے قائل ہیں، اگرچہ انہوں نے اپنی 'الجامع' میں قیاس فاسد یاباطل رائے کی مذمت پیش کی ہے۔ اب تصور قیاس کے اس فرق کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جائے گی جس میں امام بخاری رحمہ اللہ دیگراہل علم سے منفرد ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے تصور قیاس کے امتیازات
1۔ قیاس، رائے اور تمثیل کے الفاظ سے اجتناب
امام بخاری رحمہ اللہ (متوفی 204ھ ۔820م)لفظ قیاس کی بجائے اجتہاد کی جامع اصطلاح کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے امام بخاری نے "باب مایذکره من ذم الرأی وتکلف القیاس"اور "باب ما کان النبی یسأل مما لم ینزل علیه الوحی فیقول لا أدری أو لم یجب حتی ینزل علیه الوحی ولم یقل برأی ولا بقیاس لقوله تعالی بما أراك اللّٰه "اور "باب تعلیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم أمته من الرجال والنساء مما علمه اللّٰه لیس برأی ولا تمثیل" کے نام سے ابواب قائم کیے ہیں، جن کا مقصد اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ قیاس میں تکلف کرنا مذموم ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قیاس یا تمثیل کی نسبت درست نہیں ہے۔
یہ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جمہور اہل علم کی طرح قیاس ِ صحیح کے قائل ہیں، لیکن اس کے لیے امام شافعی کی تعبیر کے مطابق لفظ اجتہاد کو نمایاں کرتے ہیں، جیسا کہ امام صاحب نے "باب ماجاء في اجتهاد القضاة بما أنزل الله" اور "باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ" ’’جب حاکم اجتہاد کر کے حکم دے یا فیصلہ کرے تو اسے (مخلصانہ محنت کا)ثواب ملے گا خواہ وہ درست حکم دے یا غلطی کر جائے‘‘کے عنوان سے ابواب قائم کیے ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ قیاس کو امام صاحب کے پسند نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس اصطلاح کے ساتھ کچھ ایسے تصورات بھی ملحق ہو گئے تھے جو شرعی مقاصد کے خلاف تھے۔
2۔ ارکان قیاس
جمہور اہل علم کا تصور قیاس تو یہ ہے کہ اصل کا حکم فرع میں کسی مشترک وجہ یا علت کے سبب منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ اس تصور قیاس میں ایک کو اصل بنایا جاتا ہے اور دوسری کو فرع۔ مثلاً شراب کی حرمت کا حکم قرآن مجید