کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 23
اس عنوان سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ امام صاحب مطلقاً قیاس کے خلاف ہیں کیوں کہ ہم یہ واضح کر چکے ہیں امام صاحب رحمہ اللہ نے رائے مذموم اور قیاس فاسد کا انکار کیا ہے ۔اگر امام بخاری رحمہ اللہ مطلقاً قیاس کے انکاری ہوتے تو اپنی 'الجامع' میں "باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبین قد بین اللّٰه حکمهم لیفهم السائل".... کے نام سے باب قائم نہ کرتے جو قیاس ہی کی واضح تصریح ہے۔
اجتہاد کی بحث میں اصولیین نے اپنی کتب میں اس نکتہ پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امور شرعیہ میں اجتہاد فرمایا ہے یا نہیں؟امام زرکشی رحمہ اللہ نے بعض اہل علم کی یہ رائے نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے امور شرعیہ میں اجتہاد جائز نہیں تھا کیوں کہ ان مسائل میں آپ پر وحی اترتی تھی اور آپ ہدایت ربانی کا انتظار فرمایا کرتے تھے۔ [1]
امام بخاری رحمہ اللہ کی عبارت سے ایسا مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک چوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد "ما أراك الله"میں داخل تھا، لہٰذا وہ قیاس یا رائے نہیں کہلائے گی،بل کہ واقعتاً ان کے اجتہاد پر وحی کا اطلاق ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور جمہور اہل علم کے موقف میں یوں فرق بیان کیا جا سکتا ہے کہ جمہور کے نزدیک واقعتاًاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امور شرعیہ میں قیاس اور شرعی رائے کے ذریعے اجتہاد فرمایا اور اس اجتہاد کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تصویب وتائید نے وحی کا درجہ دے دیا جب کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک آپ کا اجتہاد شروع ہی سے وحی میں داخل ہے کیوں کہ جس رائے کا اظہار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسئلہ میں کیا ہے وہ اللہ کی طرف سے آپ کو سجھائی گئی ہے یعنی وہ وہبی ملکہ نبوت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ لہٰذا جو بات اللہ کی طرف سے سجھائی گئی ہے تو اس کی نسبت اللہ کی طرف کرنی چاہیے نہ کہ شخصی رائے کی طرف۔ اور اس پہلو سے گویا نبی کی رائے ابتداء اً ہی وحی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بغیر وحی کے کچھ بھی نہیں کہا کرتے تھے۔ دراصل یہ نبی کے اجتہاد اور امتی اہل علم کے اجتہاد کا فرق واضح کیا جارہا ہے۔
منطقی تمثیل اور امام بخاری رحمہ اللہ
اہل منطق نے دلیل کی تین قسمیں بیان کی ہیں:قیاس، استقرا اور تمثیل۔ [2]تمثیل میں ایک جزئی کی دوسری جزئی کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے خواہ وجہ مشابہت موثر ہو یا غیر موثر۔ امام بخاری رحمہ اللہ دراصل اہل منطق کی تمثیل کی تردید کرتے ہیں جب کہ وہ علت موثرہ کی بنیاد پر حکم کے اشتراک کے مخالف نہیں ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے ابواب اور ان کے تراجم سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب منطقی تمثیل کو بھی پسند نہیں
[1] الزركشي، بدر الدين محمد بن بهادر، البحر المحیط في أصول الفقه: 6/214، دار الكتب العلمية، بيروت، 2000ء
[2] غازی پوری، حافظ عبد الله، رسالة منطق: ص70-72، فاروقي كتب خانه، ملتان