کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 22
’’بے شک اللہ سبحانہ وتعالی لوگوں کو علم عطا کرنے کے بعد ان (کے سینوں)سےعلم سلب نہیں کرے گا بل کہ اہل علم کو اٹھا لے گا۔ پس ان کے بعد جہلا باقی رہ جائیں گے اور ان سے لوگ فتوے طلب کریں گے جو اپنی رائے سے فتوے دیں گے۔ نتیجتاً خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام صاحب جس رائے کی مذمت کر رہے ہیں وہ ایسی رائے ہے جو کتاب وسنت کے علم کے بغیر قائم ہو۔ ظاہر ہے کہ ایک جاہل کی رائے کی بنیاد کتاب وسنت تو نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا جب رائے کی بنیاد کتاب وسنت نہیں ہے تو وہ رائے مذموم ہی ہے۔ اس باب کے تحت دوسری روایت جو امام صاحب نے نقل کی ہے وہ سہل بن حنیف کا یہ قول ہے : "اتهموا رأیکم على دینکم. " [1] ’’اپنے دین کے مقابلے میں اپنی رائے کو بے اعتبار جانو۔‘‘ 'على دینکم'کے الفاظ سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ باور کروا رہے ہیں کہ ایسی رائے مذموم ہے جو دین کے مقابلہ میں ہے یعنی کتاب وسنت کی تعلیمات کے بغیر یا ان کے خلاف ہو۔اگر کسی رائے کی بنیاد کتاب وسنت ہو یا وہ کتاب وسنت سے ماخوذ و مستنبط ہو تو محمود ہے۔ اس کی ایک دوسری تعبیر یہ بھی ہے کہ وہ رائے بھی قابل اعتبار نہیں ہے ،جو دین پر اضافہ ہو جسے عرفِ شرع میں بدعت کہتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایسی رائے کی مذمت میں بھی "باب ما یکره من التعمق والتنازع في العلم و الغلو في الدین والبدع" ....کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ اس سلسلے میں واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’الجامع الصحیح‘ میں ایک عنوان یوں باندھا ہے: "باب ما کان النبی یسأل مما لم ینزل علیه الوحی فیقول لا أدری أو لم یجب حتی ینزل علیه الوحی ولم یقل برأی ولا بقیاس لقوله تعالی بما أراك اللّٰه" [2] ’’اس امر کی وضاحت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (فوری طور پر )کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتاتے تھے بل کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات پوچھی جاتی جس سے متعلق کوئی وحی نہ اتری ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: میں نہیں جانتا یا جواب نہ دیتے اور قیاس ورائے کی بنیاد پر کچھ کہنے سے گریز فرماتے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہے: اس ہدایت کے مطابق فیصلے فرمائیے جو ا للہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجھائی ہے۔ ‘‘
[1] صحیح البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب ما يذكر من ذم الرأي: 7308 [2] صحیح البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب ما کان النبی یسأل مما لم ینزل علیه الوحی فیقول لا أدری أو لم یجب ...