کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 21
مسافر یا مریض ہو تو قضا کرتے ہوئے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر سکتا ہے۔ اس حکم کی حکمت بنی نوع انسان کو مشقت سے بچانا ہےلیکن مشقت ایک ایسا وصف ہے جو منضبط نہیں ہے ۔لہٰذا اس پر عام حالات میں حکم کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی اور یہ نہیں کہا گیا کہ جو شخص بھی مشقت محسوس کرے ، وہ روزہ قضا کر سکتا ہے بل کہ اسے ایک اور وصف سفر یا مرض وغیرہ کے ذریعے منضبط کر دیا گیا جن میں مشقت ایک خاص درجہ میں بالاتفاق موجود تھی۔ اب بعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ جن میں سفر اور مرض کے برابر یا ان سے بھی زیادہ مشقت موجود ہے تو کیا ان صورتوں میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے؟ قیاس کے قائل جمہور اہل علم تو یہ کہتے ہیں کہ شریعت نے روزے کی قضا کے لیے صرف سفر اور مرض کو بطور علت بیان کیا ہے لہٰذا ہم کسی اور صورت میں روزہ قضا کرنے کو اس پر قیاس نہیں کر سکتے ہیں اور جب تک ان دونوں اوصاف میں سے کوئی ایک وصف موجود نہ ہو تو اس وقت تک روزہ قضا کرنا درست نہیں ہے،جب کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ کسی وصف کو علت قرار دینے میں اگرچہ انضباط کی بہت اہمیت ہے لیکن بعض مخصوص صورتوں میں ہم انضباط کے وصف ہی سے چمٹے رہنے کی وجہ سے قیاس کو جمود کا شکار کر دیں گے اور شریعت کے مقاصد پورے ہونے سے رہ جائیں گے۔ لہٰذا اگر کوئی مزدور سارا دن بھٹوں وغیرہ میں کام کرتا ہے تو اس کی مشقت مسافر اور مریض کی مشقت کی مانند یا ان سے بڑھ کرہے لہٰذا ایسے شخص میں اگرچہ سفر یا مرض کے اوصاف میں سے کوئی وصف نہیں پایا جا رہا ہے لیکن سفر اور مرض کی مشقت سے بڑھ کر تکلیف ہوتی ہے لہٰذا روزہ قضا کرنے کی حکمت یعنی مشقت بدرجہ اتم پائی جا رہی ہے پس ایسے شخص کو بھی روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے۔[1] امام بخاری رحمہ اللہ بھی انضباط علت سے بڑھ کر مناسبت علت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اگرچہ عام حالات میں وہ بھی علت کی شروط میں اس کے ساتھ ظہور اور انضباط کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔ مذموم رائے سے اجتناب امام بخاری رحمہ اللہ نے 'الجامع الصحیح' میں قیاس کے ساتھ' رائے' کے بارے بھی اپنا نقطہ نظر واضح کیا ہے۔قیاس کے ساتھ تکلف کا لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن رائے کا لفظ مطلقاً استعمال کیا گیا ہے، اگرچہ اس سے پہلے 'من' تبعیضیہ ہے جو اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں امام صاحب رائے کی بعض اقسام کی نفی کرنا چاہتے ہیں یعنی جو رائے مذموم یا باطل ہو، اس سے بچانا چاہتے ہیں۔ امام صاحب نے اس عنوان کے تحت دو احادیث نقل کی ہیں کہ پہلی روایت حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: إن اللّٰه لا ینزع العلم بعد أن أعطاکموه انتزاعا، ولکن ینتزعه منهم مع قبض العلماء بعلمهم، فیبقی ناس جهال یستفتون فیفتون برأیهم، فیضلون ویضلون [2]
[1] أبو زهره، محمد بن أحمد بن مصطفى،ابن تيمية حياته وعصره وآداؤه وفقهه:ص379-380، دار الفكر العربي، القاهرة، 2000م [2] صحیح البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب ما يذكر من ذم الرأي ...: 7307