کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 20
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ علت کی شرائط میں سے حکم سے علت کی مناسبت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قیاس شبہ اور قیاس طرد کے قائل نہیں ہیں کہ جن میں علت کی حکم سے مناسبت یا تو وہم کے درجہ میں ہے یا منضبط اور متعدی نہ ہو۔ پس امام بخاری رحمہ اللہ "باب ما یذکر من ذم الرّأی وتکلّف القیاس"کے ذیل میں جو روایت لائے ہیں اُس میں اس بات کاتذکرہ ہے کہ اللہ تعالی اہل علم کو اٹھا لیں گے اور جہلا اپنی رائے سے فتوی دیں گے۔روایت کے الفاظ یہ ہیں: "إن اللّٰه لا ینزع العلم بعد أن أعطاکموه انتزاعا، ولکن ینتزعه منهم مع قبض العلما بعلمهم، فیبقی ناس جهال یستفتون فیفتون برأیهم، فیضلون ویضلون." [1] ’’بے شک اللہ سبحانہ وتعالی لوگوں کو علم عطا کرنے کے بعد ان (کے سینوں)سےعلم سلب نہیں کرے گا بل کہ اہل علم کو اٹھاکر علم چھین لے گا۔ پس ان کے بعد جہلا باقی رہ جائیں گے اور ان سے لوگ فتوے طلب کریں گے جو اپنی رائے سے فتوے دیں گے۔ نتیجتاً خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ اس روایت کو لانے سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالی ایسے علما کو اٹھا لیں گے جن کے علم میں رسوخ اور گہرائی ہوتی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں علما کہلائے جانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ جہلا باقی رہ جائیں گے۔ یہاں جہلا سے مراد وہ لوگ ہیں جو علم کی طرف منسوب تو ہیں لیکن ان میں علم کی گہرائیاں اور وسعتیں موجود نہیں ہیں۔ لوگوں کا ان جہلا کی طرف فتاوی کے لیے رجوع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جہلا معاشرے میں علما کے مقام پر فائز ہوں گے ،لیکن فتوی کے لیے جس علمی رسوخ یا گہرائی کی ضرورت ہے، وہ چوں کہ ان میں موجود نہیں ہے لہٰذا انہیں جہلا سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پس جب علما میں علمی پختگی نہیں ہو گی اور وہ کچھ ظاہری مشابہتوں کو دیکھ کر فتوے دینا شروع کر دیں گے ، مقاصد شریعت اور حکمتوں ومصالح کو پیش نظر نہیں رکھیں گے جیسا کہ قیاس شبہ اور قیاس طرد وغیرہ میں علت مؤثرہ کو نظر انداز کیا جاتا ہے توخود بھی صراط مستقیم سے ہٹ جائیں گے اوراپنے متبعین کو بھی اس سے دور کر دیں گے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی 728ھ۔1328م)بھی علت کی شرائط میں سے مناسبت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر مناسبت کی معارض چیزوں کو اہمیت دی جائے گی تو قیاس میں ایسی بے ضابطگیاں پیدا ہوں گی جو اسے تکلف میں داخل کر دیں گی۔ اس کی مثال امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بیان کی ہے کہ رمضان کے مہینہ میں روزہ قضا کرنے کی علت سفر یا مرض متفق علیہ ہیں یعنی اگر کوئی شخص رمضان کے مہینہ میں
[1] صحیح البخاري، كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة، باب ما يذكر من ذم الرأي ...: 7307