کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 19
نے فرمایا کہ انہیں قریب لے آؤ۔ جب وہ سبزیاں آپ کے پاس موجود ایک صحابی کے قریب کر دی گئیں تو آپ نے دیکھا کہ وہ صحابی اس کو کھانے میں کراہت محسوس کر رہے ہیں (کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان سبزیوں کو تناول نہیں فرما رہے تھے)تو آپ نے فرمایا: تم کھا لو کیوں کہ میں تو اس ذات سے مناجات کرتا ہوں کہ جس سے تم مناجات نہیں کرتے ہو۔‘‘ اس حدیث کو لانے سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود قیاس بوجہ علت مشترکہ کا اثبات ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز کو کھاکر مسجد یا عوامی مجالس میں آنے سے منع فرمایا تھا اور اس میں علت ان سبزیوں میں موجود بُو کا وصف تھا ۔ پس جب وہ علت دیگر سبزیوں میں بھی پائی گئی تو لہسن اور پیاز کے حکم میں وہ بھی شامل ہو گئیں۔ اسی طرح عصر حاضر میں ہم لہسن وپیازپر سگریٹ کو بھی قیاس کر سکتے ہیں ۔ [1] قیاس شبہ اور قیاس طرد؛امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف مولانا عبد السلام مبارکپوری رحمہ اللہ (متوفی 1342ھ)کا کہنا یہ ہے کہ تکلف قیاس سے امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد قیاس شبہ اور قیاس طرد اور قیاس استحسان ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ قیاس کی ان قسموں کے قائل نہیں ہیں۔[2]قیاس شبہ سے مراد وہ قیاس ہے کہ جس کی مفروضہ علت کی حکم کے ساتھ مناسبت یا عدم مناسبت واضح نہ ہو رہی ہو یا اس کی مفروضہ علت کی حکم سے مناسبت وہم کے درجہ میں ہو۔ایسی علت بہت دفعہ پائی جاتی ہو لیکن لازماً مؤثر نہ ہويا بالفاظ دیگر جس میں اصل کا حکم فرع میں اس لیے جاری کر دیا جائے کہ فرع کو اصل کے ساتھ کافی زیادہ مشابہت حاصل ہے اور یہ نہ دیکھا جائے کہ حکمِ اصل کی علت بھی فرع میں حقیقتاً موجود ہے یا نہیں۔جیسا کہ بعض اہل علم نے مذی کے حکم کو پیشاب پر اس مشابہت کی بنا پر قیاس کیا ہے کہ دونوں سے سلسلہ نسب جاری نہیں ہوتا ہے۔ اب مذی کے حکم کو سلسلہ نسب کے جاری ہونے یا نہ ہونے کی علت سے کوئی شرعی یا عقلی مناسبت نہیں ہے۔ [3]جب کہ قیاس طرد سے مراد ایسا قیاس ہے جس میں وصف جامع کی حکم شرعی سے مناسبت اتفاقی نوعیت کی ہو یا علت منضبط نہ ہو جیسا کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مس ذکر سے وضو نہ کرنے کی وجہ (علت)اس کے طویل ہونے کے وصف کو بنایاہے۔ [4]
[1] واضح رہے یہ ان لوگوں کی رائے کے مطابق قیاس ہو گا جو سگریٹ کو جائزیا مکروہ مانتے ہیں ورنہ جو سگریٹ کی حرمت کے قائل ہیں، ان کو اس دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ [2] مباکپوری، مولانا عبد السلام،سیرۃ البخاری،تعلیق وتخریج،ڈاکٹر عبد العلیم عبد العظیم بستوی: ص 434، 441،نشریات، لاہور،2009ء [3] عياض بن نامي السلمي، أصول الفقه الذی لا یسع الفقیه جهله: ص122، دار ابن الجوزي، الرياض [4] ايضاً: ص123