کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 17
من‘ استعمال کیا ہے جو یہاں تبعیض کے لیے ہے یعنی بعض کا مفہوم پیش کر رہا ہے۔ حرف جار ’من‘ کے کئی ایک استعمالات میں سے ایک معروف معنی ’تبعیض‘کا بھی ہے۔[1] پس امام صاحب ہر اس قیاس کے قطعاً مخالف نہیں جس میں علت مخفی ہو یا کوئی مجتہد اجتہاد کے ذریعے اس علت کو اخذ کرے۔علاوہ ازیں دلالت النص اور قیاس واستحسان کا فرق صرف یہ نہیں ہے کہ دلالت النص میں علت بدیہی جب کہ قیاس میں عموماً اجتہاد کانتیجہ ہوتی ہے۔ بلکہ بڑا فرق یہ ہے کہ دلالت النص، قیاس بنفی الفارق کی صورت ہے جب کہ عام قیاس علت مشترکہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ چناں چہ ہم ’الجامع الصحیح‘ کے مطالعہ میں جابجا دیکھتے ہیں کہ وجہ مشترکہ یا عمومی ہونے کی بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ حکم شرعی کے اطلاق میں مشترکہ یا عمومی استدلال کا طریقہ اپناتے ہیں۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دلالت النص کے علاوہ اشتراک علت کی بنا پر ہونے والے قیاس کے بھی قائل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر امام صاحب اس قیاس کے خلاف ہوتے جومجتہد کے فعل اجتہاد کا نتیجہ ہو تو وہ حاکم کے غلط اجتہادپر اجر کی تائید میں’باب أجر الحاکم إذا اجتهد فأصاب أو أخطأ،’’جب حاکم اجتہاد کر کے حکم دے تو اسے (مخلصانہ محنت کا)ثواب ملے گا خواہ وہ درست حکم دے یا غلطی کر جائے۔‘‘کے عنوان سے باب کیوں باندھتے؟حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (متوفی 852ھ۔1448ء)نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنے ان الفاظ کے ذریعے رائے اور قیاس کی بعض ناقص صورتوں کی مذمت کر رہے ہیں نہ کہ مطلقاً قیاس کی مخالفت کے قائل ہیں۔ [2] قیاس بنفی الفارق مذکورہ بالا بات کو مثبت انداز میں زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ علت شرعی کی ایک صورت تو قیاس بنفی الفارق کی ہے جس میں دو چیزوں کے مابین فرق کرنے والے اوصاف کی نفی کرتے ہوئے قیاس بالاولیٰ یا قیاس مساوی کے ذریعےان کو شرعی حکم میں بھی برابر قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری صورت قیاس بوجہ علت مشترکہ ہے یعنی کسی مشترک وصف کی بنیاد پر دو چیزوں کو حکم میں برابر قرار دیا جاتا ہے۔ پہلی صورت کو دلالت نص اور دوسری کو عموماً قیاس کا نام دیا جاتا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ دونوں کے قائل ہیں۔مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے جس باب میں اپنا تصور اجتہاد تفصیل سے بیان کیا ہے یعنی "باب الأحکام التي تعرف بالدلائل وکیف معنى الدلالة وتفسیرها..."، اس میں یہ حدیث بیان کی ہے:
[1] أبو البقاء أيوب بن موسى الحسيني الكفومي، كتاب الكليات: ص1337، مؤسسة الرسالة، بيروت، 1998ء، [2] ابن حجر، أحمد بن علي بن حجر، فتح الباري شرح صحيح البخاري: 13/282، دار المعرفة،بيروت، 1379ھ