کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 16
صاحب نے مطلق ’قیاس ‘ کے لفظ کی بجائے ’تکلف قیاس‘کہا ہے ،جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے نزدیک قیاس مذموم نہیں ہے بل کہ قیاس میں تکلف کرنا مذموم ہے۔ پس وہ تکلفاً قیاس کی نفی کر رہے ہیں۔ [1] قیاس میں تکلف کا تعین پھر امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے قیاس میں تکلف اور عدم تکلف کا تعین کرتے ہوئے بعض اہل علم نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ قیاس کی بجائے دلالت النص کے قائل ہیں کیوں کہ یہ اہل علم تکلف قیاس سے مراد وہ قیاس لیتے ہیں جو جمہور متاخرین کا تصورِ قیاس ہے اور ان کے خیال میں امام بخاری رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں تھے۔ ان کی رائے میں تکلف قیاس وہ قیاس ہے کہ جس میں علت مخفی یا اجتہادی ہوتی ہے اور امام صاحب اسی کی مذمت کر رہے ہیں۔ ’قیاس‘ اور ’دلالت النص‘ میں فرق یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’قیاس‘ میں علت مخفی ہوتی ہے اور مجتہد کو نکالنا پڑتی ہے، جب کہ ’دلالت النص ‘میں علت ظاہر ہوتی ہے اور ایک عامی بھی اس کو معلوم کر سکتا ہے۔ [2] مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہے:﴿ فَلَا تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ ﴾ [3] ’’پس تم اپنے والدین کو اف تک بھی مت کہو۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’اف ‘کہنے سے جو منع کیا گیا ہے اس کی وجہ والدین کو اذیت پہنچانا ہے۔ لہٰذا ہر ایسا قول یا فعل ممنوع قرار پائے گا جس سے والدین کو ذہنی، قلبی، نفسیاتی یا جسمانی ا ذیت پہنچے۔ یہ اس آیت کا ایسا مفہوم ہے جسے اخذ کرنا ایک عامی کے لیے بھی ممکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ دلالت نص کو’بدیہی قیاس‘بھی کہا گیاہے یعنی ایسا قیاس جوایک عام شخص کی دسترس میں ہو۔ اس کے برعکس قیاس میں انتقال حکم کی بنیاد’علت خفی‘ کو صرف ایک مجتہد ہی اپنی اجتہادی بصیرت اور قوت تفقہ سے مستنبط کر سکتاہے۔ علت خفی اور تکلف قیاس اس بارے ہمارا مؤقف یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے یہ توجیہ کرنا درست معلوم نہیں ہوتا کہ امام صاحب قیاس کی بجائے صرف دلالت النص کے قائل ہیں اور تکلف قیاس سے مراد جمہور اہل علم کا تصور قیاس ہےکیوں کہ یہ تصور امام بخاری رحمہ اللہ کی بجائے ان کے ہم عصر امام داؤد ظاہری رحمہ اللہ (متوفی 270ھ۔884ء)کا ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے رائے اور قیاس کی مذمت کرتے ہوئے حرف جار
[1] دروس صحیح بخاری: ص216 [2] دروس صحیح بخاری: ص216 [3] الاسراء17: 23