کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 15
﴿ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ﴾کی تفسیر کرتے ہوئے امام رازی رحمہ اللہ (متوفی 327ھ)نے تفسیر الکبیر میں لکھا ہے: "فیه قولان: الأول: أن ذلك الكتاب المبين هو علم اللّٰه تعالى لا غیره وهذا هو الصواب" [1] ’’اس میں دو قول ہیں: پہلا یہ کہ اس کتاب مبین سے مراد اللہ کے علم کے سوا کوئی دوسری شے نہیں اور یہی قول درست ہے۔‘‘ حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیات میں ’کتاب مبین‘ سے مراد قرآن کریم نہیں ہے بل کہ لوحِ محفوظ ہے۔ اور منکرین قیاس کا ان سے استدلال درست نہیں ہے۔ اور تیسری آیت: ﴿ وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾ [2] ’’اور ہم نے آپ پر کتاب اُتاری ہےجو ہر بات کو کھول کر بیان کر دینے والی۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں مجموعی طور پر تمام تشریعی اُمور کے مبادی و اصول موجود ہیں، اور پھر اس پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ طرق استنباط کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے جس کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ یا تو بواسطہ نص قرآن سے حکم مستنبط کر لیا جائے۔ یا ان قواعد عامہ کو برت کر استنباط کیا جائے جن کی طرف قرآن نے راہنمائی کی ہے۔ حجیت قیاس میں امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک بعض لوگوں کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ امام بخاری قیاس کے قائل نہیں تھےاور وہ اس کی حجیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ صحیح بخار ی سے درج ذیل دلیل دیتے ہیں۔ "باب ما یذکر من ذم الرّأی وتکلّف القیاس" [3] ’’دینی مسائل میں رائے پر عمل کرنے اوربے ضرورت قیاس کرنے کی مذمت کا بیان ۔‘‘ اور دروس صحیح بخاری میں ہے : ’’بعض اہل علم کو یہ غلط فہمی لاحق ہوئی کہ امام صاحب قیاس کے حق میں نہیں ہیں جب کہ یہ دعوی امر واقعہ کے خلاف ہے۔‘‘ [4] اس سلسلے میں حقیقت وہی معلوم ہوتی ہے جو اس باب میں بادنیٰ تامل سے ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ یہاں امام
[1] فخر الدين الرازي، أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين، تفسير الفخرالدین الرازي المشتهر بالتفسير الكبير ومفاتيح الغيب: 13/11، مكتبة العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، 1411هـ [2] النحل16: 89 [3] صحیح البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة [4] گوندلوی، حافظ محمد، دروس صحیح بخاری، مرتبہ منیر احمد: ص216۔ 224، اسلامک پبلشنگ ہاؤس ، 17 اردو بازار، لاہور، 1992ء