کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 14
ب)﴿ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ﴾ [1] ’’اور نہ کوئی تر اور خشک چیز مگر (یہ سب کچھ)روشن کتاب میں موجود ہیں۔‘‘ ج)﴿ وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾ [2] ’’اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر بات کو کھول کربیان کر دینے والی کتاب اتاری ہے۔‘‘ منکرین قیاس ان آیات سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ جب قرآن کریم میں تمام احکام کی بابت ضروری معلومات جمع ہیں تو پھر تشریع بالقیاس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیوں کہ اس صورت میں قیاس دو حال سے خالی نہ ہو گا: یا تو قیاس اسی چیز پر دلالت کرے گا جس پر قرآن دلالت کر رہا ہے تو یہ تحصیل ِ حاصل ہے، یا پھر قرآن قیاس کے خلاف پر دلالت کرےگا تو وہ مردود ہے، لیکن مذکورہ بالا آیات سے منکرین قیاس کا استدلال درست نہیں ہے کیوں کہ ان آیات میں سیاق عبارت دلالت کر رہا ہے کہ کتاب سے مراد قرآن کریم نہیں ہے بل کہ ’علم الٰہی‘ یا بالفاظ دیگر ’لوحِ محفوظ‘ مراد ہے۔ تفسیر روح المعانی میں ہے: عن الحسن وقتادة أن المراد بالکتاب: الکتاب الذی عند اللّٰه تعالى وهو مشتمل على ما کان وما یکون وهو اللوح المحفوظ [3] ’’حسن بصری رحمہ اللہ اور قتادۃ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ میں جو لفظِ کتاب آیا ہے اس سے مراد وہ کتاب ہے جو اللہ کے پاس محفوظ ہے اور جس میں ماضی و مستقبل کی تمام باتیں درج ہیں اور وہی لوح محفوظ ہے۔‘‘ لہٰذا منکرین قیاس کی طرف سے لفظِ ’الکتاب‘ کا قرآن پہ اطلاق سرے سے درست ہی نہیں ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں﴿ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ﴾میں مراد وہی’علمِ الٰہی‘ ہے۔ سیاق عبارت ملاحظہ ہو: ﴿ وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا اِلَّا هُوَ١ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ﴾ [4] ’’اور اسی کے پاس غیب کے خزانے کی کنجیاں ہیں۔ انہیں بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی اور تری میں ہے اور کوئی پتّہ نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتابِ مبین میں ہیں۔ ‘‘
[1] الانعام6: 59 [2] النحل16: 89 [3] آلوسي، السيد محمود، روح المعاني: 7/145، دار إحياء التراث العربي، بيروت [4] الانعام6: 59