کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 13
اَحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےدلیل صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی اور اب ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نعم، حجّی عنها، أرأیت لو کان علی أمك دین أکنت قاضیة؟ قالت: نعم، فقال: اقضوا الله، فأن اللّٰه أحق بالوفاء [1] ’’ہاں اس کی طرف سے حج کر اور بتلاؤکہ اگر تمہاری ماں پر کسی کا قرض ہو توادا کرو گی؟ اس نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ کا قرض ادا کرنا تو زیادہ ضروری ہے۔‘‘ مندرجہ بالا حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد پر حقوق اللہ کو قیاس فرمایا ہے۔ یہ روایت اس بات کی شاہد ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں خود قیاس فرما کر اُمت کے لئے قیاس سے کام لینے کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ بہت سی احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں شریعت کا حکم بیان فرمایا ،وہاں حکم کی علت بھی بیان فرمائی۔ علت بتانے کا فائدہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس علت کی بنا پر یہی حکم دوسری چیزوں میں بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ منکرین قیاس کے دلائل کا جائزہ جو لوگ قیاس کو دلیل شرعی تسلیم نہیں کرتے ان کےچند ایک دلائل درج ذیل ہیں: ۱۔ ان کی پہلی دلیل یہ آیت ہے: ﴿ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ [2] ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان اسی کے مطابق فیصلہ کیجئے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔‘‘ منکرین قیاس اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قیاس "حکم بما لم ینزل به الله" ہے، حالاں کہ ان کا یہ استدلال درست نہیں ہےکیوں کہ اجتہاد شرعی کے ذریعے، حکم منصوص کی بنیاد پر، دیگر احکام کی تفریع ’حکم بما لم ینزل به الله‘ نہیں ہوتا اور اگر ایسا ہی ہوتا تو اللہ اختلاف کی صورت میں ’فردوه إلى الله والرسول‘ کا حکم ہی کیوں دیتا؟ ۲۔ الف)﴿ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ﴾ [3] ’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔‘‘
[1] البخاری، محمد بن اسماعيل، صحيح البخاري، كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة، باب من شبه أصلا معلومًا... : 7315، دار السلام للنشر والتوزيع، الریاض، الطبعة الثانیة، 1999ء [2] المائدة5: 48 [3] الانعام6: 38