کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 112
جیسا کہ ڈاکٹر عبد الہادی لکھتے ہیں: "ومنه القيام بالدراسات المقارنة في شتي المجالات الأصولية أو الفقهية أو الحديثة" ’’اسلامی تناظر میں مختلف میدانوں میں تقابلی مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جیسے فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث وغیرہ ہیں‘‘ 7۔تاریخی منہج تحقیق (Historical Research) جب ہم تاریخ کا مطالعہ و تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں تاریخی منہج تحقیق اپنانا پڑتا ہے۔ جس میں گزشتہ واقعات کی اس طریقے سے ترتیب و توجیہ کرنا ہوتی ہے کہ پیش آمدہ مشکل کو حل کرنے میں مستقبل کے اعتبار سے راہنمائی ملے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے۔ حال میں جو مسئلہ ہمیں درپیش ہو اس کے نظائر ماضی میں یقیناً گزر چکے ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس سلسلے میں متشابہ واقعات کی نشاندہی اوردرست اسباب و عوامل کا تعین کرکے آئندہ کے لیے راہنمائی لینا اسی منہج تحقیق میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اور اگر خالص اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس منہج تحقیق میں مسلم شخصیات کی سوانح حیات اور آغاز اسلام سے لے کر ابھی تک کی اسلامی تاریخ کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے موضوعات کو صرف ان کی اہمیت و افادیت کی بنیاد پر تحقیق کے لیے منتخب کرنا چاہیے۔ موضوع اختیار کرتے وقت یہ دیکھ لینا چاہیے کہ حال اور مستقبل میں ملت ِاسلامیہ کے لیے وہ کن کن پہلووں سے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک تاریخی منہاج تحقیق کو اپناتے ہوئے مختلف نوعیت کی دستاویزات اور تہذیبی و تمدنی آثار کا سہارا لیا جاتاہے۔اس منہج کو اپناتے ہوئے ایک محقق کو ذاتی میلانات اور تعصب سے دور رہنے کا خصوصی طور پر خیال کرنا چاہیے۔ جو بات ا س کے نقطۂنظر کے معارض ہو، اسے بیان کرے اور ایک علمی انداز میں اس کی تردید کرے۔ تحقیق کے اس میدان کے لیےحکومتی رجسٹرز و دیوان، ذاتی یاداشتیں اور تاریخ پر لکھی گئی کتب بنیادی مصادر کی اہمیت رکھتے ہوتے ہیں۔ 8۔بیانیہ(وصفی)منہج تحقیق (Descriptive Research) اس سے مراد وہ منہج تحقیق ہے جس میں پیش آنے والے حالیہ حادثات و واقعات کو بیان کیا جائے۔ پہلے ایک محقق حالات کا بغور مشاہدہ کرتا ہے۔ پھر ان کا تجزیہ و تحلیل اور توجیہ و تعلیل کرکے متوقع امکانات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور بالآخر ان میں بہتر حل کی طرف راہنمائی بھی دیتا ہے۔ اسی طرح کسی مخصوص علمی موقف سے متعلق حقائق کا تعارف کروانا،اس سے متعلقہ تمام آرا کا احاطہ کرنا، ان کی تفسیر و توضیح اور تجزیہ و تعلیل کرنا بھی اسی منہج میں شامل ہے۔ چناں چہ اس ضمن میں اولاً ہردو پہلو سے محقق ساری بحث کو سامنے لاتا ہے۔ پھر اس کی صفات