کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 111
غور وفکر کیا تو وہ اس نتیجے تک پہنچ جائے گا کہ فلاسفہ اور متکلمین میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ اس نے خالق کے وجود کے بارے میں کچھ عقل کلام کیا ہو اور قرآن مجید نے اس کے کلام سے بہتر، اکمل، زیادہ نفع بخش، زیادہ مضبوط اور زیادہ قطعی دلیل بیان نہ کی ہو۔‘‘ اگرچہ معاصر مغربی علوم کے بہت زیادہ گوشے نئے ہیں۔طرزِ فکر میں بھی بہت تبدیلی آچکی ہے۔ استخراج کی بجائے استقرا پر زیادہ زور ہے جب کہ دوسری طرف اسلاف نے جس فلسفہ فکر کا سامنا کیا تھا اس میں استخراجی طرزِ فکر کو مرکزی حیثیت تھی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک جداگانہ علم کلام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ کتاب و سنت اپنے زمانہ نزول سے لے کر آج تک ایک ہی ہیں۔ ان کی تعلیمات، طرز ہائے استدلال وغیرہ سبھی کچھ جوں کا توں ہے۔ بس عصری تقاضوں کے مطابق ان میں مزید وسعتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ چناں چہ اس پہلو سے دیکھا جائے تو شرعی طرز استدلال کے بارے میں ہم امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے راہنمائی لے سکتے ہیں۔ ان کے واضح کردہ منہج کو مفربی فکر کے بالمقال بکثرت استعمال کر سکتے ہیں۔ مشترکہ مناہج تحقیق اس سے مراد وہ مناہج تحقیق ہیں جو مغربی اور اسلامی علوم میں سے ہر دو کے لیے استعمال ہو سکتےہیں۔ ذیل میں انہیں اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ 4۔ تقابلی منہج تحقیق تقابلی منہج تحقیق سے مراد دو اشیاء یا واقعات کے درمیان موازنہ کرنا ہے۔ ان کی باہمی خصوصیات اور صفات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے درمیان تعلق و رابطہ کو تلاش کرنا ہے۔ اور ان کے آپس میں ایک دوسرے پر مثبت و منفی اثر واضح کرنا ہے۔ تقابلی، تجزیاتی اور تنقیدی مطالعہ کے لیے اس منہج کو استعمال کیا جاتا ہے۔ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (متوفی808ھ)فرماتے ہیں: ’’ اس میں ایک محقق کو اقوام، علاقے، شہر، اخلاق، رسومات، مذاہب اور تمام احوال کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔پھر وہ ان کا باہمی موازنہ کرتے ہوئے مشترکات کو تلاش کرے۔ نیز برآں یہ ہے کہ متفقہ اور مختلف توجیہات کی نشاندہی کرے۔‘‘[1] علوم اسلامیہ میں بھی تحقیق کے دوران مختلف علوم اور اصولوں کا باہمی طور پر تقابل کرنا بطور منہج شامل ہے۔
[1] أصول البحث: ص63