کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 109
دینا چاہیے۔
مغربی علوم و فنون کے بارے میں دوسرا مرحلہ تعمیر فکر ہےکہ وہ افکار و نظریات یا فنون جو اسلام کی مجموعی ہئیت اور جزوی تعلیمات سے لگا کھاتے ہیں کہ جن کی اسلام کار ممکن ہو سکتی ہے انہیں اسلامیانے میں لایا جائے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’تعمیر فکر سے مراد یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام علوم و فنون کی ترتیب نو اور تشکیل جدید۔ اس میں جدید علوم کی تشکیل جدید بھی شامل ہے اور قدیم اسلامی علوم کی تعمیر نو بھی۔ قرآن و سنت کے غیر متغیر اور قابل تبدل اصولوں کی روشنی میں علوم کو اس طرح مرتب کرنا کہ وہ عصر حاضر میں ہمارے لیے کار آمد ثابت ہو سکیں اور ایک ایسے نظام فکر و عمل اور تہذیب و تمدن کی تعمیر میں مدد دے سکیں جو عصر حاضر میں دنیا کے سامنے اللہ کے دین کی گواہی دے سکیں۔ ﴿ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ﴾ تاکہ اللہ کی حجت دنیا والوں پر تمام ہوسکے۔ اور کوئی شخص اللہ کے خلاف کوئی حجت پیش نہ کرسکے۔ ‘‘[1]
اس سلسلے میں ذہن نشیں رہے کہ قبل ازیں ماضی میں فلسفہ یونان سے ہمارے اسلاف کو ایسا ہی واسطہ پڑ چکا ہے۔ اسلاف کی اس کے ساتھ کش مکش طویل صدیوں پر مشتمل ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ بالآخر ہم سرخرو ہوئے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی ورثہ سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے کیوں کہ ایک تو یہ ہے کہ اہل مغرب کی بھی فکری و فلسفیانہ اساس افکار یونان ہی ہیں جب کہ دوسری طرف اسلاف اس پر اچھی طرح رد و قدح کر چکے ہیں۔ اس میں سے کھرے و کھوٹے کی تفریق اور صحیح و غلط کے مابین امتیاز بحسن و خوبی ہو چکا ہے۔
ائمہ اسلاف نے جن طرز ہائےفکر یا مناہج کے مطابق فلسفہ یونان کا مطالعہ کیا ہے ان میں سے سب سے زیادہ مستحکم اور اقرب الی الکتاب و السنۃ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی 728ھ)کا منہج ہے۔ دریں اثنا امام صاحب جابجا کہتے ہوے نظر آتے ہیں کہ ہمیں عقلی دلائل کے لیے یونانی عقلیات کی طرف مراجعت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کتاب و سنت سے استفادہ کرنا چاہیے کیوں کہ اس کے دلائل سب سے زیادہ عقلی اور مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
" وَالْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ يَدُلُّ بِالْإِخْبَارِ تَارَةً، وَيَدُلُّ بِالتَّنْبِيهِ تَارَةً، وَالْإِرْشَادِ وَالْبَيَانِ لِلْأَدِلَّةِ الْعَقْلِيَّةِ تَارَةً، وَخُلَاصَةُ مَا عِنْدَ أَرْبَابِ النَّظَرِ الْعَقْلِيِّ فِي الْإِلَهِيَّاتِ مِنَ الْأَدِلَّةِ الْيَقِينِيَّةِ وَالْمَعَارِفِ الْإِلَهِيَّةِ قَدْ جَاءَ بِهِ الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ، مَعَ زِيَادَاتٍ وَتَكْمِيلَاتٍ لَمْ يَهْتَدِ إِلَيْهَا إِلَّا مَنْ هَدَاهُ اللّٰه بِخِطَابِهِ، فَكَانَ فِيمَا جَاءَ بِهِ الرَّسُولُ مِنَ الْأَدِلَّةِ الْعَقْلِيَّةِ وَالْمَعَارِفِ الْيَقِينِيَّةِ فَوْقَ مَا فِي عُقُولِ جَمِيعِ الْعُقَلَاءِ مِنَ الْأَوَّلِينَ
[1] ادب القاضی: ص 15