کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 108
اس معاملہ میں پیچھے نہیں۔‘‘ [1] اگرچہ اہل مغرب کی اس خدا بیزاری اور مادیت پرستی کے مخصوص تاریخی اسباب ہیں۔ سردست ان کا تعین اور ان کی طرف نشاندہی کرنا مقصود نہیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ مغربی دنیا کا ہر علم و فن اس طرز فکر کے مطابق استوار ہے۔ فطری علوم()ہو یا سماجی علوم()سبھی اسی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے عمومی طور پر اہل مغرب کی طرز حیات کا ہر پہلو الحاد و دہریت کے تعفن سے اٹا ہوا ہے۔ چناں چہ ہمیں مغربی علوم و فنون کی اسلام کاری کرنے کے لیے دو مرحلوں سے گزرنا چاہیے۔ اولاً یہ کہ ان تمام کا تنقیدی مطالعہ کرکے ان میں سے کھرا اور کھوٹا الگ کر دیا جائے۔ اور اس کے بعد ان کی تشکیل جدید کی جائے۔ ان میں سے جو چیز تعمیری، مثبت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو اسے لے لیا جائے۔ اور جو چیز تخریبی، منفی اور شریعتِ اسلامیہ کے مخالف ہو اسے ترک کر دیا جائے۔ اسی کی طرف ڈاکٹر محمود غازی﷫نے اشارہ فرمایا ہے۔ اور انہوں نے پہلے مرحلے کو تطہیر فکر جب کہ دوسرے کو تعمیر فکر کانام دیا ہے: ’’تطہیر فکر سے مراد رائج الوقت علوم و فنون کا اسلامی نقطہ نظر سے تنقیدی جائزہ لے کر کھرا اور کھوٹا الگ کر دینا اس میں شامل ہے۔ ‘‘[2] ہمارے ہاں اہل مغرب اور مغربی علوم و فنون کے بارے میں عمومی طور پر جو روش پائی جاتی ہے وہ تقلید و اتباع کی ہے۔ مغرب سے درآمد شدہ ہر چیز کو بغیر تحقیق و تشکیک کے حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس پر جرات تنقید کو حماقت قرار دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ اہل مشرق کے لیے یقیناً زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں اور اسلاف کے ورثہ پر اعتماد کرتے ہوئے اہل مغرب کی ہر چیز کو تشکیکی انداز میں دیکھنا ہو گا۔ واضح رہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم مغرب سے آئی ہوئی ہر چیز پہلی ہی نظر مسترد قرار دے دیں اور اسے ناقابل التفات ٹھہرا دیں۔ اور اس کے بارے میں سخت نوعیت کے فتاویٰ صادر کرنے شروع کردیں۔ ان دونوں انتہائی رویوں کے نتائج سے تاریخ ہمیں سبق سکھا چکی ہے۔ دیدۂ عبرت کے لیے اس میں بہت کچھ پنہاں ہے۔ ویسے بھی یہ کوئی معقولیت پر مبنی انداز ہائے فکر معلوم نہیں ہوتے۔ چناں چہ دعویٰ اور مخالف دعویٰ کے تصادم سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ مغربی علوم و فنون کو یک نظر مسترد کرنے کی بجائے انہیں تنقیدی اسلوب میں پڑھنا چاہیے۔ ان میں سے جو چیز اسلام اور اسلامی تعلیمات کے موافق محسوس ہو اسے دوسری سے ممتاز کر
[1] محمود احمد غازی، ڈاکٹر، ادب القاضی: ص 15، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، طبع سوم، 1999ء [2] ادب القاضی: ص 15