کتاب: رُشد شمارہ 1 - صفحہ 107
اس کے لیے ’استنبطت الرکیة‘ بولا جاتا ہے۔ اور ’نبط الماء‘ سے مراد وہ پانی ہے جو زمین سے نکالا جائے۔ ‘‘ درج بالا تصریحات سے عیاں ہوتا ہے کہ استنباطی عمل سخت ترین عقلی محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک محقق اپنے دائرۂ تحقیق میں نصوص شرعیہ کے صحیح معانی کا ادراک حاصل کرنے کی بھرپور سعی کرتاہے۔ انہیں ان کے حقیقی معانی پر محمول کرنے کے بعد تجزیہ و تحلیل سے کام لیتا ہے۔ پھر ان سے بنیادی اصول و نتائج اخذ کرتا ہے۔ اور آخر میں ان نتائج کو مضبوط، واضح اور مقبول دلائل کے ساتھ مستحکم کرتا ہے۔یہ ایک نوعیت سے اجتہادی کاوش ہے۔ اس منہج کے درست استعمال کے لیے فن ’اصول فقہ ‘سے شناسائی لازمی ہے۔ اسلامی منہاج تحقیق میں استنباطی منہج استخراجی اور استقرائی ہر دو طرح کے طرز استدلال پر محیط ہے۔ تاہم اس میں غالب رججان استخراج کو ہی حاصل ہے۔ اس میں نصوص کے مطالعہ اور تتبع و تلاش کے بعد اصول مرتب کیے جاتے ہیں۔ بعدازاں ان طے شدہ اصولوں کی روشنی میں ایک لحاظ سے کلی نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ 3۔استسلامی منہج تحقیق اس منہج تحقیق کے حوالے سے ’مجوزہ‘ اصطلاح میں اگرچہ رد و قدح کی جاسکتی ہے تاہم اس میں پیش کردہ فکر ایک حقیقت اور عصری تقاضہ ہے۔ استسلامی منہج تحقیق سے مراد مغربی علوم و فنون کو اسلامی مثالیہ()میں ڈھالنا ہے۔ انہیں اسلامی نظریہ حیات کے مطابق شکل دینا ہے۔ گزشتہ چند صدیوں سے اہل مغرب نے جہاں مادی اور عسکری میدان میں تفوق و برتری حاصل کی ہے وہاں انہوں نے علوم و فنون کے دائرہ کار میں بھی نئی جہات متعارف کراوائی ہیں۔ وہ اپنی تحقیقی کاوشوں کی بدولت کئی طرح کے فنی شاہکار سامنے لانے کے قابل ہوئے ہیں۔ اہل مغرب ایک مخصوص طرز کے مادی نظریہ حیات کے حامل ہیں۔ اور ان کے تمام تر علوم و فنون میں اسی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ان کی تعبیر اور روح مادیت پرستی کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمود غازی رحمہ اللہ (متوفی 2010ء)رقم طراز ہیں: ’’آج کل کے مغربی علوم و فنون کو ہی لیجیے۔ اس وقت مغربی تہذیب و تمدن کے پیدا کردہ جو علوم دنیا میں رائج ہیں وہ تمام تر مغرب کے مخصوص فکری سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، مغرب کا استعماری رنگ مکمل طور پر رچا بسا ہوا ہے۔ علوم طبعی اور علوم حسی تو خیر خدا بیزار اور وحی و الہام کی راہنمائی سے برگشتہ ہیں ہی، علوم عمرانی و اجتماعی بھی